
اگر مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن کی خواہش پر عمران خان کو گھر بھیج دیا جائے تو اسکے بعد پاکستان کا کیا حشر نشر ہونیوالا ہے ؟ صف اول کے صحافی کا خصوصی تبصرہ
لاہور (ویب ڈیسک) آصف علی زرداری کو اللہ زندگی دے، دس پرسنٹ سے80 پرسنٹ کی سیاست دوبارہ نہیں جنم لے گی، سرے محل اور دیگر الزامات پر نو جماعتیں این آر او دیں گی، پیپلزپارٹی کے خلاف بننے اور لگنے والے نعرے دوبارہ نہیں اٹھیں گے، حسین حقانی کی طویل تحریک کامیاب ہوتی ہے
نامور کالم نگار میاں اشفاق انجم اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور نئے امریکی صدر پیپلزپارٹی کو دوبارہ اقتدار دے دیتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری یا آصفہ زرداری کی حکومت عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب ہو جائے گی، غریبوں کو چھت اور بے روزگاروں کو روزگار اور اداروں کو سربراہ مل جائیں گے۔ میرا دعویٰ ہے عوام شاید بھولنے کی عادت برقرار رکھتے ہوئے دوبارہ موقع دینے کا فیصلہ کر لیں مگر پی ڈی ایم میں شامل دس جماعتیں تیار نہیں ہوں گی۔ بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) رہ جاتی ہے اس کی خود ساختہ صدر مریم نواز کو وزیراعظم بنا دیا جائے،سمجھ لیا جائے، مسلم لیگ (ن) کے تین ادوار تاریخی ہیں مریم نواز کی کرپشن اور نااہلیت کو بھی عوامی اور قومی مفاد میں ختم کر دیا جائے اور انہیں وزیراعظم بنا دیا جائے تو کیا پیپلز پارٹی سمیت دیگر نو جماعتیں انہیں تسلیم کر لیں گی، اگر سمجھ لیا جائے تسلیم کر لیں گی کتنی دیر کے لئے اقتدار دیں گی اور پھر سب سے بڑا سوال اٹھتا ہے عمران خان کی طرف سے کی گئی تباہی کا ازالہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے نجات مریم نواز کر سکیں گی۔عمران خان پر یو ٹرن کا الزام لگانے والی مریم کے اپنے یو ٹرن اور جھوٹ پر کتاب لکھی جا سکتی ہے اسی طرح اگر پی ڈی ایم میں اتفاق رائے ہو، مولانا ساجد میر، شیر پاؤ، اچکزئی، بلوچستان موومنٹ، اے این پی، مولانا نورانی پارٹی اور دیگر پی ڈی ایم اتحادیوں کو بھی اقتدار دینے کا فیصلہ کر لیں
کیا کسی ایک پارٹی پر دیگر دس پارٹیوں کا اتفاق ہو گا، اگر سمجھ لیا جائے، اداروں کی نفرت، عمران خان سے نجات کے لئے وقتی طور ایسا کر لیا جائے ان کو حکومت کتنی دیر کے لئے دی جائے، پاکستان کا جمہوری عمل تو پانچ سال دیتا ہے۔ عمران خان کو فارغ کر کے یہ روایت اور دستور تو ہم توڑنا چاہتے ہیں۔یقینا پی ڈی ایم کی جماعتیں ایک دوسرے کو برداشت نہیں کریں گی،ضمنی الیکشن کی دو یا تین نشستوں پر اتفاق ہو سکتا ہے، سینیٹ کی بندر بانٹ میں بھی ممکن ہے اقتدار کی چھتری تلے سب کو ساتھ لے کر چلنا شاید پاکستان میں ممکن نہیں ہے، اس لئے انڈین اور اسرائیلی لابی کی سازشوں کی تکمیل کے لئے حصہ بننا اور اداروں کو بے توقیر کرنے کی کوشش کا آلہ کار بننا موجودہ حالات میں جمہوری عمل کو سبوتاز کرنے کے مترادف ہو گا اگر عمران خان کو فارغ کرنے سے آئی ایم ایف، ورلڈ بنک سے نجات مل سکتی ہے، مہنگائی ختم اور لاکھوں بے روزگاروں کو روزگار مل سکتا ہے، بے گھر خاندانوں کو چھت مل سکتی ہے، یوٹیلٹی بلوں میں عوام کو ریلیف مل سکتا ہے، ادارے مضبوط ہو سکتے ہیں، قیام پاکستان کے مقاصد کے تحت خوشحال اور اسلامی پاکستان بن سکتا ہے تو پھر فوری کرنا چاہئے، عمران خان کو ایک دن بھی مزید وزیراعظم رہنا نہیں چاہئے۔اگر ان مقاصد میں کوئی بھی مقصد فوری ملنے والا نہیں تو پھر جمہوری روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے سلامتی کے اداروں کے خلاف سازشوں کے آگے پل باندھنے کے لئے بند آنکھیں کھولنا ہوں گی، حکومتی غلطیوں کی نشاندہی دبنگ انداز میں ضروری ہے، ٹوٹ پھوٹ کا شکار عمارت کی تعمیر کے لئے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، وطن ِ عزیز کی بنیادیں کھوکھلی کرنے والوں کے ہاتھ روکنے اور توڑنے والی قوتوں کا دست ِ بازو بننا ہو گا۔ یہی وقت کی ضرورت ہے پاکستان ہے تو سیاسی میدان ہے ورنہ انڈیا میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کی حالت ِ زار دیکھ کر وطن ِ عزیز کو انمول نعمت ِ خداوندی سمجھ کر الحمد للہ ضرور کہیں۔
Leave a Reply