براڈ شیٹ نے ایک نامور پاکستانی سیاستدان کے نیوجرسی میں اکاونٹ کا سراغ لگا کر نیب کو بتایا تو آگے سے کیا ناقابل یقین جواب ملا ؟ جان کر آپ کو براڈ شیٹ اسکینڈل کی ساری کہانی سمجھ آجائیگی

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار عمران یعقوب اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لندن کی عدالت نے براڈ شیٹ کو نیب کی جانب سے واجب الادا جرمانے کی عدم ادائیگی پر لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کے اکاؤنٹس سے 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز ڈیبٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے 2018 میں نیب کے خلاف 2 کروڑ ڈالر جرمانہ عائد کیا اور امریکی کمپنی کو جرمانہ ادا نہ کرنے پر دو سال میں 90 لاکھ ڈالر سود بھی شامل ہو گیا۔ پاکستانی حکومت اب تک اس مقدمے میں 50 ملین ڈالرز سے زائد کی رقم ادا کر چکی ہے‘ جس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ براڈ شیٹ کے 550 ملین ڈالرز کے دعوے کے مقابلے میں 290 ملین ڈالرز جرمانہ عائد ہوا۔ احتساب کے ادارے کی جانب سے رقم ادا نہ کیے جانے کے بعد عدالتی حکم پر پاکستان ہائی کمیشن کا اکائونٹ بھی منجمد کر دیا گیا۔ اگر ہم اب تک ادا کی گئی اربوں روپے کی رقم کا جائزہ لیں تو ان اربوں روپوں سے ملک میں 4 یونیورسٹیاں، درجنوں کالج، سینکڑوں سکول، 100 بیڈز کے کئی ہسپتال اور یا پھر کئی کلومیٹرز لمبی سڑکیں بن سکتی تھیں۔ برطانوی ماہرین قانون کے مطابق براڈ شیٹ کے مقدمے میں غفلت نہیں بلکہ مجرمانہ نااہلی ثابت ہوئی ہے‘ جس کی وجہ نیب کے معاملات میں پارلیمانی، عدالتی و ادارہ جاتی نگرانی کا نہ ہونا ہے۔ احتساب کے ادارے نے یہ معاہدہ کرتے وقت نہ تو اٹارنی جنرل آفس سے مشاورت کی اور نہ ہی دفتر خارجہ یا ہائی کمیشن سے مدد لی گئی، بلکہ پیپرا قواعد کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ اس ضمن میں پہلے رائج قواعد کو نظر انداز کرتے ہوئے غیرملکی فرم سے معاہدہ کیا گیا اور پھر اسے یکطرفہ طور ختم کردیا گیا۔ عدالتی حکم نہ ماننے کے باعث پاکستان کو اب عائد جرمانے اور ساتھ سود کی رقم ادا کرنا پڑی ہے۔

اب اگر اس سارے معاملے کے سیاسی پہلو پر واپس آئیں تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ احتساب کے ادارے کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔ بقول کاوے موسوی ان کی فرم نے نیب کو لاکھوں ڈالرز مالیت کے بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگاکر ثبوت فراہم کیے اور ان سے کہاکہ وہ اس رقم کو واپس لانے کیلئے متعلقہ حکومتوں کو قانونی چارہ جوئی کی درخواست دیں اور درخواست تحریر بھی کرکے فراہم کی لیکن سیاسی اور دیگر مصلحتوں کے تحت ایسا نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے وہ آفتاب شیرپاؤ صاحب کے مبینہ اکاؤنٹ کی مثال دیتے ہیں کہ انہوں نے شیرپاؤ کے ایک لاکھوں ڈالر مالیت کے اکاؤنٹ کا سراغ نیو جرسی میں لگایا۔ نیب کو آگاہ کیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ آپ نیو جرسی میں حکام کو لکھیں تاکہ یہ رقم پاکستان لائی جا سکے ‘ لیکن ادارے نے متعلقہ حکام کو لکھا کہ ہمیں اس اکاؤنٹ سے مسئلہ نہیں ہے‘ لہٰذا اسے کھول دیا جائے ۔ اس کے بعد اس میں سے رقم نکلوا لی گئی اور بعد میں انہی شیرپاؤ صاحب کو وزیرِ داخلہ بنا دیا گیا۔ اب اگر وہ اس حوالے سے غلط بیانی کررہے ہیں تو نیب انہیں عدالت کیوں نہیں لے کر جاتی؟ اور اگر یہ سچ ہے تو سارے کرداروں کو کٹہرے میں لایا جانا چاہیے کیونکہ پاکستانیوں کے اربوں روپے ضائع کیے گئے ہیں۔لوٹی ہوئی دولت کا ہم راگ تو بہت سنتے آئے ہیں لیکن اس حوالے سے اب اصل امتحان جناب وزیر اعظم کا ہے کہ کیا وہ واقعی لوٹ مار کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہتے ہیں یا صرف باتیں ہی کرتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ فوری طور پر لندن کی کورٹ کا فیصلہ پبلک کروائیں کیونکہ اس فیصلے میں بہت اہم تفصیلات ہیں۔ اگر مصلحت کا مظاہرہ کیا گیا کہ اس فیصلے کو پبلک کرنے سے ان کے کچھ اپنے لوگ بھی رگڑے جائیں گے اس لیے چپ ہو جانا ہی بہتر ہے تو میرے خیال میں ایسا کرکے وزیر اعظم”Mother of all NROs” دیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.