
چوہدری صاحب : میرا تحریک انصاف کے ساتھ گزارا نہیں ہونا کیونکہ ۔۔۔۔۔ استعفے سے کچھ ہفتے قبل ندیم افضل چن ایک نامور صحافی کو کیا بتایا تھا ؟ جانیے
لاہور (ویب ڈیسک) نامور صحافی چوہدری خادم حسین اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے معاون خصوصی ندیم افضل چن کا استعفا منظور کر لیا جس کا اطلاق بھی فوری طور پر ہو گیا، ندیم افضل نہ صرف بطور معاون خصوصی مستعفی ہوئے بلکہ انہوں نے تحریک انصاف کی رکنیت
بھی چھوڑدی۔ اس بارے میں مزید کوئی اطلاع نہیں۔ تاہم یہ طے ہے کہ جب بطور معاون خصوصی ان کی رخصتی منظور کر لی گئی تو جماعتی حیثیت کیا رہ گئی؟ہم نے ندیم افضل چن کے حوالے سے انتظار کر کے قلم اٹھایا کہ چند وزرا نے وزیر اعظم سے استعفا منظور نہ کرنے کی اپیل کی تھی لیکن اگر ندیم افضل چن کا اپنا مزاج ہے تو کپتان بھی انگلی کے اشارے سے فیلڈ تبدیل کرتے رہتے ہیں چنانچہ یہ منظور کر ہی لیا گیا۔ یوں بھی کپتان نے حالیہ کابینہ میٹنگ میں یہ واضح کر دیا تھا کہ جن کو پالیسی سے اختلاف ہو وہ عہدہ چھوڑ دیں۔ ندیم افضل چن کا تو اختلاف ہی مظلومیت اور انسانیت کے حوالے سے تھا۔ وہ ان ایک دو وزرا کے ہمنوا تھے جو چاہتے تھے کہ وزیر اعظم کو سانحہ مچھ کے متاثرین سے ملاقات کے لئے جانا چاہئے۔ لیکن وزیراعظم کو یہ مشورہ پسند نہ آیا اور ان حضرات کی بات تسلیم کی گئی جو جانے کے خلاف تھے۔ ویسے بھی وزیراعظم کو بتا دیا گیا تھا کہ گئے تو بدشگونی ہو گی۔ ان کو اس بات پر زیادہ اعتماد اور اعتبار تھا اور عمل بھی اس کے مطابق ہوا۔جہاں تک ندیم افضل چن کا تعلق ہے وہ یوں بھی یہاں ”مِس فِٹ“ تھے وہ اپنے آباء سے ”جیالے“ ہیں کہ ان کے والد افضل چن خود ”جیالے“ ہیں۔ ندیم افضل چن جب پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں گئے تو بظاہر اس جماعت سے ان کو کوئی رنجش نہیں تھی کہ
وہ صوبائی جنرل سیکرٹری تھے اور ان کو احترام بھی دیا گیا تھا۔ اس سے قبل وہ محترمہ کی شہادت کے بعد بے چین رہے۔افضل چن ایم آر ڈی اور اے آر ڈی کے دور میں سرگرم بھی رہے اور ندیم افضل نے بھی ساتھ نبھایا پھر وہ وقت آیا جب ان کو قیادت سے شکایت پیدا ہوئی ہمارے ساتھ ایک ملاقات میں انہوں نے تحفظات کا اظہار بھی کیا کہ ان کو زیادہ شکایت صوبائی قیادت سے تھی ایک ٹی وی پروگرام کے بعد ہم نے نجی طور پر ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ بے چینی محسوس کر رہے ہیں، تاہم جماعت چھوڑنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ البتہ سرگرمیوں میں کمی کی ہے اور پھر ایسا ہوا کہ ان کے یہ تحفظات دور ہو گئے اور انہوں نے صوبائی جنرل سیکرٹری کا عہدہ قبول کر لیا۔ ہمیں یاد ہے کہ جب پیپلزپارٹی کے قیام کی گولڈن جوبلی تھی اور تقاریب کا انعقاد بلاول ہاؤس لاہور میں ہوا تو وہ جنرل سیکرٹری ہونے کے ناتے نقابت کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے اور بہت پُر جوش تھے بلکہ نعرے بھی لگواتے رہے لیکن جونہی 2018ء کے انتخابات قریب آئے اور مسئلہ الیکٹ ایبل کا ہوا تو اچانک ندیم افضل نے پیپلزپارٹی چھوڑی اور تحریک انصاف کے ہو گئے۔ پھر ان کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ بھی مل گیا، لیکن سوئے قسمت وہ انتخاب ہار گئے۔ اس کے بعد اقتدار جب عمران خان کو ملا تو ان کی بھی دلجوئی کی گئی اور وہ وزیر اعظم کے ترجمان بنا لئے گئے۔ اس حیثیت سے انہوں نے بہت کام کیا لیکن مزاجاً
”ٹائیگر“ نہ بن سکے اور بات کرنے اور جواب دینے کے حوالے سے ان کا اپنا ہی انداز تھا ہم نے ان کے پرانے دوستوں سے کہا تھا کہ ندیم افضل چن زیادہ دیر نہیں چل سکیں گے کہ جو روایت ٹائیگر ترجمان فورس کی ہے وہ اس کے مطابق عمل نہیں کر رہے تھے۔ یوں بھی ہماری اطلاع ہے کہ وہ تحریک انصاف میں خوشدلی سے نہیں گئے تھے۔ ان کے ننھیال کی ضرورت تھی اور انہوں نے سر تسلیم خم کیا تھا یوں بھی جو شخص ”جیالا“ رہ چکا ہو، اس کا کسی اور جماعت میں گزارہ مشکل ہی ہے کہ ”جیالا“ بہت بے باک ہوتا ہے اور قیادت کے سامنے بھی اعتراض کر سکتا ہے۔ یہاں ایسی بات نہیں تھی مچھ کا تو بہانہ بنا وہ پہلے ہی سے خود کو ”آرام دہ“ (Comfortable) محسوس نہیں کرتے تھے اب اگر ننھیال والوں کی خاطر ندیم نے تحریک انصاف کا رخ کر لیا تھا تو ”جیالا پن“ ختم نہیں ہو گیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ ندیم افضل نے جس مقصد کے لئے قربانی دی اب اس کا کیا ہوگا؟ کیا نیب اپنے زیر التوا کیسوں کی درجہ بندی کر کے ان کے اعزا کو معاف رکھے گا۔ بہر حال سوشل میڈیا پر تو کچھ اور ہی ہو رہا ہے۔ سوال پوچھا گیا کہ کیا پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر جانے والا واپس اپنی جماعت میں جائے گا یا پھر کوئی اور راہ ڈھونڈ لے گا اور کیا جیالے ان کی واپسی قبول کر لیں گے؟ اس پر کسی نے جواب دیا وہ خود نہیں گئے، لے جائے گئے تھے!
Leave a Reply