کبوتروں کا مزاروں سے کیا تعلق ہوتا ہے؟

میں گڑھی شاہو کے قریب، میاں میرکے مزار پر، لوگوں کی جوتیاں سیدھی کرتا ہوں. جی ہاں، میں مزار کے دروازے کے باہر بیٹھ کر، زائرین کی جوتیوں کی نگرانی کرتا ہوں. میں یہاں کیسے پہنچا، آئیے میں آپ کو بتاتا ہوں. یہ کہانی میری ہے، شہناز بیگم کی ہے اور

شاید محبت کی بھی ہے. محبت کی تو بہت کہانیاں ہوتی ہیں لیکن یہ کہانی ان سے بہت مختلف ہے میں تقریباً ٣٢ سال کا ہوں اور میرا نام ……بلکہ ذرا ٹھہرئیے، میرے نام سے آپ کو کیا لینا دینا؟ لاہور کا رہنے والا ہوں اور ایک عزت دار اور کروڑ پتی کاروباری گھرانے سے میرا تعلق ہے. ماسٹر کرنے کے بعد میرے والد نے زبردستی مجھے انارکلی میں اپنی آبائی بدیسی کپڑے کی دوکان پر بٹھا دیا. زبردستی اسلئے کے مجھے کاروبار وغیرہ کا نا تو کوئی شوق تھا اور نا ہی میرے اندر، کاروبار کرنے کی کسی قسم کی کوئی بھی قابلیت تھی. میں تو خیالات کی دنیا میں رہنے والا ایک بہت حساس اور نرم دل انسان تھالیکن یہ سب میرا ماضی تھا. اب میں گڑھی شاہو کے قریب، میاں میرکے مزار پر، لوگوں کی جوتیاں سیدھی کرتا ہوں. جی ہاں، میں مزار کے دروازے کے باہر بیٹھ کر، زائرین کی جوتیوں کی نگرانی کرتا ہوں. میں یہاں کیسے پہنچا، آئیے میں آپ کو بتاتا ہوں. یہ کہانی میری ہے، شہناز بیگم کی ہے اور شاید محبت کی بھی ہے. محبت کی تو بہت کہانیاں ہوتی ہیں لیکن یہ کہانی ان سے بہت مختلف ہےتو صاحب بات ہے آج سے کچھ برس پہلے کی. سردیوں کے دن تھے اور ہلکی ہلکی بارش لگی ہوئی تھی. میں وحدت روڈ کے راستے، علامہ اقبال ٹاؤن کی طرف جا رہا تھا جہاں میرے بچپن کے ایک دوست کا دفترابھی بھی واقع ہے. بڑا خوبصورت موسم تھا. باہر یقیناً بہت سردی

تھی مگر میری گاڑی کے اندر نرم حرارت کا راج تھا اور ساونڈ سسٹم پر کوئی صوفیانہ کلام چل رہا تھاگڈ لک بیکری کے سامنے سے گزر کر کچھ آگے نکلا تو محمود ڈرائنگ سنٹر کے سامنے، روڈ پر اپنی طرف ایک کار کھڑی نظر آئ، جس کا غالباً ایک ٹائر پنکچر تھا؛ اور اس کے بالکل ساتھ ایک خاتون کھڑی، پریشانی سے ادھر دیکھتی بارش میں بھیگ رہی تھی. لگتا تھا کہ وہ بہت دیر سے وہاں کھڑی کسی مدد کا انتظار کر رہی تھیآپ سوچ رہے ہوں گے کہ خاتون تھی تو بےشمار لوگ کھڑے ہوگئے ہوں گے. یقیناً ایسا ہی ہوتا اگر وہ خاتون تھوڑی سی بھی خوبصورت ہوتی. لیکن وہاں تو قصہ ہی کچھ اور تھا. نا صرف وہ خاتون دیکھنے میں بہت بدصورت، کالی کلوٹی اور موٹی تازی تھی بلکہ اس کی عمر بھی، پچپن ساٹھ کے قریب قریب تھیپہلے تو میں نے اس پر اچٹتی نگاہ ڈالی اور ساتھ سے گزر گیا. لیکن تھوڑی آگے جا کر ہی مجھے اپنی بےحسی کا اندازہ ہوگیا. میں نے ایک کٹ سے گاڑی گھمائ اور سروس روڈ سے واپس ہوگیا. اس کے قریب پہنچ کر گاڑی ایک سائیڈ پر پارک کی اور ایمرجنسی لائٹیں جلا کر اور اتر کر اس کے پاس چلا گیامعاف کیجئے گا!’ میں نے کھنکار کر اس کی توجوہ اپنی طرف مبذول کی. ‘کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟ وہ چونک کر میری طرف مڑی اور اوپر سے نیچے تک میرا جائزہ لیا. پھر میری مرسڈیز کی طرف دیکھا .آپ مدد

کریں گے میری؟’ اس نے حیرت سے پوچھا’ .جی بالکل!’ میں نے اثبات میں سر ہلایا’ .ٹائر پنکچر ہوگیا ہے میری گاڑی کا. وہ تبدیل کرنا ہوگا.’ اس کے لہجے میں بےیقینی تھی’ جی بہتر! آپ ایسا کیجئے میری گاڑی میں تشریف رکھیں. یہاں بارش میں کھڑی بھیگتی رہیں تو بیمار پڑ جایئں گی. میں تبدیل کرتا ہوں ٹائر ، وہ کچھ نا بولی اور کچھ دیر میری طرف دیکھتی رہی. پھر میرے ہاتھ میں اپنی گاڑی کی چابی تھمائ اورجا کر چپ چاپ میری گاڑی میں بیٹھ گئگاڑی کی ڈکی میں پانہ اور جیک دونوں تھے اور خوشقسمتی سے سٹپنی میں ہوا بھی تھی. مجھے بس دس پندرہ منٹ لگے اور میں نے ٹائر تبدیل کر دیا. میں نے پنکچر شدہ ٹائر ڈکی میں واپس رکھ کر ڈکی بند کی تو وہ میری گاڑی سے اتر کر آ گئ ؎، لیجئے آپ کی گاڑی تیار ہے.’ میں نے چابی اس کی طرف بڑھائی. ‘میرا مشورہ ہے کہ کہیں بھی اور جانے سے پہلے ٹائر کا پنکچر لگوا لیں ورنہ مزید پریشانی بن سکتی ہے، تم بہت اچھے لڑکے ہو.’ اس نے میری طرف مسکرا کر دیکھا. ‘مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ کیسے تمھاری مہربانی کا بدلہ اتاروںارے نہیں!’ میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا. ‘اس میں بھلا مہربانی یا بدلے کی کیا بات ہے. میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو یہ ہی کرتا، نہیں سوہنے! تم سے پہلے بہت سے یہاں سے گزرے اور مجھے کھڑا دیکھا. لیکن ان میں سے کسی نے رک کر میری مدد نہیں

کی.’ اس کا مجھے اسقدر بے تکلفی سے سوہنا کہنا عجیب سا تو لگا لیکن میں اس کی عمر کے احترام میں خاموش رہا، تم ایسا کرو، اپنی گاڑی میرے پیچھے پیچھے لے آؤ. میرا گھر یہاں پاس ہی ہے. میرا غریب خانہ تمھارے جیسے اچھے لڑکے کے قابل تو نہیں لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ میں ایک چائے کا کپ تمھیں ضرور پیش کروں، میں نے جان چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر اس کے محبت اور خلوص بھرے اصرار کے سامنے میری ایک نہیں چلی۔ اس کا گھر علامہ اقبال ٹاؤن کے نیلم بلاک کی ایک تنگ سی سڑک پر واقع تھا. تقریباً ایک کنال کی عام سی کوٹھی تھی. اس نے ہارن بجایا تو ایک چوکیدار نے گیٹ کھولا اور ہم دونوں نے آگے پیچھے اندر لے جا کر گاڑیاں پارک کر دیںاس نے مجھے بہت محبت سے اندر لے جا کر ایک کمرے میں بٹھایا جو یقیناً ڈرائنگ روم تھا؛ اور خود چائے کیلئے کسی کو کہنے اندر چلی گئ. میں نے غورسے گھر کے درودیوار کا جائزہ لیا. باہر سے تو گھر عام سا ہی لگ رہا تھا مگر اندر سے بہت شاندار تھا. دروازوں اور کھڑکیوں پر بھاری کامدار کپڑے کے پردے لٹک رہے تھے، دیواروں پر بڑی بڑی منعقش فریموں والی تصویریں لٹک رہی تھیں اور چھوٹی چھوٹی میزوں اور تپایوں پر قیمتی ڈیکوریشن پیس سجے ہوئے تھےگھر کی سجاوٹ یقیناً بہت شاندار تھی لیکن مجھے کچھ عجیب سا احساس ہورہا تھا. اصل میں پیسہ بہت لگایا ہوا تھا لیکن ذوق بہت گھٹیا تھا.

پھر شاید سجاوٹ میں کوئی ترتیب نہیں تھی. کہیں کو اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا والا حساب تھا. میں ادھر ادھر دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ خاتون اندر داخل ہوئیں اور میرے پاس ہی صوفے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیئںمجھے اپنے بارے میں بتاؤ سوہنے، کون ہو اور کیا کرتے ہو؟’ اس نے مسکرا کر پوچھا’ میں نے اپنا تعارف کروایا اور ان سے ان کے بارے میں پوچھا ‘میرا نام شہناز بیگم ہے. لوگ مجھے میڈم شہناز کہتے ہیں لیکن تم مجھے صرف شہناز کہ سکتے ہو’ ارے یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ مجھ سے عمر میں اتنی بڑی ہیں. میں آپ کو صرف شہناز کیسے کہ سکتا ہوں؟’ میں نے گڑبڑا کر کہا ‘ضرور کہ سکتے ہو اگر اپنے اور میرے درمیان کے فرق کو بھول جاؤ’اچھا خیر چھوڑئیے، یہ بتائیے کہ لوگ آپ کو میڈم شہناز کیوں کہتے ہیں؟ کیا آپ کالج یا یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں؟’ میں نے بات کا رخ گھمانے کی کوشش کی. مجھے اس کی بے تکلفی سے کچھ وحشت سی ہورہی تھی، وہ تھوڑی دیر کچھ نا بولی اور متلاشی نظروں سے میرے چہرے کی طرف دیکھتی رہی. پھر شاید وہ اس کو نا نظر آیا جس کی اس کو تلاش تھی تو مسکرا کر کہنے لگی ‘بہت بھولے ہو سوہنے’ .جی؟’ میں کچھ کنفیوز سا ہوگیا’ اگر میں نے تمھیں یہ بتا دیا کہ میں اصل میں کیا ہوں تو تم یقیناً اٹھ کر بھاگ جاؤ گے.’ وہ بدستور مسکرا رہی تھیمیں جواب میں کچھ

کہنا ہی چاہتا تھا کہ ایک لڑکی کمرے میں چائے کی ٹرالی گھسیٹتی ہوئی داخل ہوئی. میں نے اس کی طرف دیکھا اور پھر…اور پھر سب کچھ بھول گیا. سادہ سا حلیہ تھا مگر نیلی گھسی ہوئی جینز اور کھلی سی سفید ٹی شرٹ میں، لمبے کالے بالوں کے ساتھ بھی، وہ ایک بیحد حسین لڑکی تھی وہ ٹرالی گھسیٹ کر میرے سامنے لے آئ اور پھر مسکرا کر میری طرف دیکھا تو میرا رہا سہا ہوش بھی جاتا رہا. بہت خوبصورت اور سحر انگیز آنکھیں تھیں اس کی، اتنی کہ ایک لمحے کو مجھے اپنا آپ ڈوبتا ہوا محسوس ہواکتنی چینی لیں گے آپ چائے میں؟’ میں کچھ نہیں بولا. بولتا بھی کیسے؟ میرے کانوں نے تو اس کا سوال ہی نہیں سنا تھا. میری تمام حسیات اس کے چہرے، اس کے شہابی گالوں اور اس کے وجود کی خوشبو پر مرکوز تھیں، ہیلو….!’ اس نے مسکراتے ہوئے میرے چہرے کے سامنے ہاتھ نچایا تو میں چونک کر حال میں واپس آ گیا. .جی؟’ میں نے سٹپٹا کر پوچھا’ .جی میں نے پوچھا ہے کہ آپ چائے میں چینی پسند کریں گے یا میں انگلی ہلا دوں؟’ وہ کھلکھلا کر ہنسی’ ‘جی بس…….!’ میں شرمندگی سے بولا، ‘بس ایک چمچ’ اس نے پیالی میں شکر ڈال کر میری طرف بڑھائی اور پھر میڈم شہناز کو آنکھ مار کر کمرے سےباہر نکل گئ میں نے چائے کا گھونٹ بھر کر میڈم کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پر ناگواری کی جھلک دیکھی. مجھ پر تو گھڑوں پانی پڑ گیا.

یہ کیا بدتمیزی کر بیٹھا تھا میں. وہ لڑکی غالباً ان کی بیٹی تھی اور میرا اس کو اس طرح سے گھور گھور کر دیکھنا ان کو برا لگ گیا تھاغالباً میڈم کو بھی میری شرمندگی محسوس ہوگئ تھی کیونکہ انہوں نے فوری طور پر اس ناگواری کو ایک زبردستی کی مسکراہٹ سے چھپا لیا تھا .جی مجھے بہت…….!’ میں نے معذرت کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے ہاتھ اٹھا کر مجھے ٹوک دیا’ ‘نا سوہنے نا! مجھے تمہارا شمع کو اس طرح سے دیکھنا برا نہیں لگا. وہ واقعی بہت خوبصورت ہے’ ‘لیکن وہ آپ کی بیٹی تھی اور مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا’ ‘نہیں وہ میری بیٹی نہیں ہے. میری جیسیوں کی بیٹیاں نہیں ہوتیں’ .جی کیا مطلب؟’ میں نے گڑبڑا کر پوچھا’مطلب یہ کہ…….!’ انہوں نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر ایک اداس مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھتے ہوئے کہا، ‘مطلب یہ کے شمع ایک طوائف ہے – کال گرل؛ اور میں اس کی نائکہ ہوں. اسلئے لوگ مجھے میڈم کہتے ہیں جی………..؟’ میں نے گھبرا کر کہا اور پھر مجھے ان کے جملے کی سنگینی کا صحیح معنوں میں احساس ہوا اور میرے کانوں میں سیٹیاں بجنا شروع ہوگیئں. ‘کیا شمع واقعی ایک طوائف ہے؟ ‘ہاں!’ میڈم نے افسردگی سے سر ہلایا. ‘وہ اکیلی نہیں ہے. اس جیسی چار لڑکیاں اور بھی ہیں میرے پاس’ میں تھوڑی دیر تو اپنا پیلا پڑتا چہرہ جھکائے وہیں بیٹھا رہا اور پھر اٹھ کر، بغیر میڈم سے اجازت لئے ان کے گھر سے نکل گیا. انہوں نے بھی

مجھے روکنے کی کوشش نہیں کی۔میں آپ کو یہاں یہ اپنے بارے میں ضرور بتاتا چلوں کہ بے حساب پیسا ہونے کے باوجود میں ایک شریف لڑکا ہوا کرتا تھا. خوش قسمتی سے بری صحبت سے بھی دور تھا. دراصل میرے شوق ہی دنیا سے الگ اور نرالے تھے لہٰذا میری عمر کے لڑکے مجھ سے دور دور ہی رہنا پسند کرتے تھےاس دن سے قبل میری کسی طوائف سے ملاقات تو دور کی بات، میں نے کبھی ایسے لوگوں کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا. لیکن اس دن تو گویا میرے دل پر قیامت ہی گزر گئ. دراصل مجھے اس لڑکی سے پہلی نظر میں ہی محبت ہوگئ تھی. وہ بہت خوبصورت تھی اور پھر اس کی مسکراہٹ اور ہنسی کی کھنک نے تو پتہ نہیں میرے دل پر کیا جادو کر دیا تھا. لیکن وہ ایک طوائف تھی اور میں اپنی خاندانی تربیت کی وجہ سے طوائفوں کو بہت برا سمجھتا تھاکچھ دن اسی کشمکش میں گزر گئے. دماغ کہتا تھاکہ میں شمع کو بھول جاؤں جبکہ دل کا یہ کہنا تھا کہ محبت کسی بھی معاشرتی رکاوٹ کو عبور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے. جب بہت تنگ آ گیا تو ایک دن دوبارہ میڈم شہناز کے گھر چلا گیاانہوں نے بہت خندہ پیشانی سے میرا استقبال کیا اور پہلے کی طرح ڈرائنگ روم میں بٹھا کر چائے منگوائی .میڈم میں آج یہاں………’ میں نے ہمت کر کے بات شروع کی’‘میڈم نہیں!’ انہوں نے مسکرا کر کہا، ‘صرف شہناز کہو’ ‘جی بہتر!’ میں نے بیچارگی سے سر جھکا

لیا. ‘شہناز میں آج یہاں شمع سے ملنے کی اجازت لینے آیا ہوں’ ہوں!’ وہ اور کچھ نا بولیں تو میں سر اٹھا کر ان کے چہرے کی طرف دیکھا. وہاں کسی بھی قسم کی ناگواری کی بجائے صرف ایک سرد سی افسردگی کا راج تھا .مجھے اس کو تمھارے سامنے نہیں آنے دینا چاہئے تھا.’ وہ کچھ دیر بعد بولیں’ لیکن وہ میرے سامنے آ گئ. میں نے اسے دیکھا اور مجھے اس سے محبت ہوگئ.’ میں نے بالکل بچوں کی طرح کہا محبت؟’ میڈم نے ایک ہلکا سے تمسخر آمیز قہقہہ لگایا. ‘تمہارا خیال ہے کہ تمھیں اس سے پہلی ہی نظر میں محبت ہوگئ؟.جی ہاں بالکل!’ میں نے پرجوش انداز میں سر ہلایا’ ‘محبت ایسے نہیں ہوتی سوہنے’ ‘پھر کیسے ہوتی ہے؟’وہ تھوڑی دیر خاموش بیٹھی میرا چہرہ تکتی رہیں. اتنے میں چائے بھی آ گئ مگر اس دفعہ شمع کی بجائے ٹرالی کوئی نوکرانی لے کر آئ تھی. میڈم نے چائے بنائی اور ایک پیالی مجھے تھما دی دیکھو سوہنے!’ انہوں نے نرم لہجے میں کہا. ‘جو تم شمع کیلئے محسوس کر رہے ہو، وہ محبت نہیں ہے، صرف وقتی لگاؤ ہے. لگاؤ محبت کی پہلی سیڑھی ہے، پوری کی پوری محبت نہیں ہے .پھر محبت کیا ہے؟’ میں نے بے چین ہوکر پوچھا’ لگاؤ محبت کے برج کی پہلی سیڑھی ہے اور اس کی آخری سیڑھی باہمی احترام ہے. ان دونوں کے درمیان اور بھی بیشمار سیڑھیاں ہیں لیکن یہ دونوں اگر نا ہوں تو محبت کی کونپل کھلتے ہی مرجھا جاتی ہےتو آپ کے

خیال میں، میں یہ سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتا؟’ میں نے تھوڑے غصے سے پوچھا’ چڑھ سکتے ہو!’ انہوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا. ‘ضرور چڑھ سکتے ہو لیکن یہ برج محبت کا نہیں ہے. اس برج کی سیڑھیاں لگاؤ اور احترام کی بجائے حیوانی اور شہوانی جذبات کی گرم اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں. ان پر چڑھنے کیلئے عبادت یا مشقت نہیں بلکہ سونے چاندی کے جوتے چاہئے ہوتے ہیں ورنہ پہلی سیڑھی پر ہی پاؤں کے تلوے جل جاتے ہیں مجھے یقین ہے کہ شمع کے اندر بھی ایک نسوانی دل دھڑکتا ہے جس کو عزت اور محبت کی تلاش ہے اور یہ دونوں چیزیں میں اس کو دوں گا.’ میں نے پیالی اور پرچ زور سے میز پر پٹختے ہوئے کہا شمع کو یہ دونوں چیزیں نہیں چاہئیں.’ میڈم نے اداسی سے کہا. ‘اس کو اپنی خوبصورتی اور جوانی کا بہت اچھی طرح سے احساس ہے اور وہ ان دونوں چیزوں کو کیش کرانا چاہتی ہے مجھے آپ کی باتوں پر یقین نہیں. لیکن اگر ایسا ہے بھی تو مجھے یقین ہے کہ میری محبت کی شدت اس کے اندر کے لالچ کو فتح کر سکتی ہے، شہناز بیگم نے اس دن مجھے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن میری آنکھوں پر میری خواہش کالی پٹی باندھ چکی تھی. جب ان کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں تو انہوں نے بہتر یہی سمجھا کہ مجھے شمع سے ملنے دے دیا جائےاگلے چھ مہینے میرے لئے کسی جنت سے کم نہیں تھے. میرے دن رات شمع کی جوانی

کے نام تھے. مجھے واقعی یہ لگ رہا تھا کہ جیسے میری محبت کی گرمی سے اس کا دل پگھل رہا تھا. ہاں لیکن یہ سب مفت نہیں ہورہا تھا. شمع کی روز ایک نئی فرمائش ہوتی جس کو پورا کرنا میں اپنا فرض سمجھتا تھا. پیسا پانی کی طرح بہ رہا تھا اور میرا کاروبار بہت بری طرح متاثر ہورہا تھا لیکن میں صرف محبت کرنے میں مگن تھاجب دوکان سے مزید پیسہ نکالنا ممکن نہیں رہا تو میں نے اپنی گاڑی بیچ دی. ابھی اس کے پیسوں سے شمع کی فرمائشیں پوری کر ہی رہا تھا کہ ایک دن ابا جی نے بلوا لیا اور میری بہت بے عزتی کی. میں نے جھوٹ بولنے کی بہت کوشش کی مگر ان کو سارے معاملے کی پہلے ہی سے اطلاع تھی. جانے کس بدخواہ نے ان کے کانوں تک میرے اور شمع کے معاشقے کی خبر پہنچا دی تھی. ان کے غصے کے آگے آخر کار مجھے تسلیم کرنا ہی پڑا ‘ہاں مجھے اس سے محبت ہے اور میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں’ تم ایک نہایت بے غیرت انسان ہو. ایک طوائف کو اس خاندان میں لانا چاہتے ہو؟’ والد صاحب نے میرے منہ پر تھپڑ مار کر کہا ‘میں اس کے بارے میں اس طرح کے الفاظ برداشت نہیں کر سکتا’ ‘نہیں برداشت کر سکتے تو نکل جاؤ میرے گھر سے اور دوبارہ اپنی منحوس شکل مجھے نہیں دکھانا’۔ابا جی کا یہ کہنا تھا اور میں نکل گیا گھر سے. شمع کی حرص بھری محبت کے پیچھے میں

نے اپنے محبت کرنے والے اور شفیق ماں باپ کا گھر چھوڑ دیا. خواہش کی آگ واقعی بہت بری طرح بھڑکتی ہے. اس کے شعلے سب سے پہلے انسان کی عقل و خرد کو جلا کر بھسم کرتے ہیں. تن اور من کی باری تو بہت بعد میں آتی ہے پھر میرے ساتھ وہ ہی ہوا جس کی آپ سب کو امید ہے. جب گاڑی کے پیسے بھی ختم ہوگئے اور شمع کو یقین ہوگیا کہ اب میرے پلے کچھ نہیں رہا تو وہ بھی اپنی اوقات پر آ گئ؛ اور ایک دن نہایت بے عزت کر کے اپنے کمرے سے مجھے نکال دیا. کچھ دیر تو میں اس کے کمرے کے بند دروازے کے سامنے سکتے کے عالم میں کھڑا رہا. مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کے محبت اور ساتھ نبھانے کے وعدے جھوٹ تھے. پھر میری حالت پر میری عزت نفس غالب آ گئ اور میں تھکے تھکے قدموں سے باہر نکل گیگیٹ سے باہر نکلا ہی تھا کے سامنے سے شہناز بیگم کی گاڑی آتی دکھائی دی. میں نے چھپنے کی بہت کوشش کی مگر انہوں نے دیکھ لیا تھا .کیا ہوا ہے سوہنے؟ کہاں جا رہے ہو ایسی رونی شکل بنا کر؟’ انہوں نے شیشہ نیچے سرکا کر پوچھا’ .کہیں نہیں! بس مرنے جا رہا ہوں’ میں نے ہاتھ کی پشت سے گیلی آنکھیں پونچھ کر کہا’ ‘ہائے! مریں تیرے دشمن.’ انہوں نے دل پر ہاتھ رکھا. ‘ادھر آ بیٹھ جا میرے ساتھ گاڑی میں’ میں نے بہت انکار کیا مگر وہ گاڑی

سے نیچے اتر آیئں اور زبردستی میرا ہاتھ پکڑ کر اگلی سیٹ پر بٹھا دیاگاڑی لاہور کی سڑکوں پر دوڑتی رہی اور میں بیٹھا روتا رہا. میڈم خاموش رہیں. بس کبھی کبھی میرے بری طرح سے ہچکیاں لینے پر میرا کندھا شفقت سے تھپتھپا دیتیں. نہر سے اتر کر میڈم نے گاڑی مال روڈ پر موڑی تو میں نے چونک کر پوچھا ‘یہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟’ ہم ایک بڑی پیاری جگہ جا رہے ہیں. میرا جب بھی جی اداس ہوتا ہے میں وہیں جا کر بیٹھ جاتی ہو. بڑا سکون ہے وہاں۔فورٹریس اسٹیڈیم کے ساتھ سے میڈم نے گاڑی بایئں ہاتھ موڑی اور پھر صدر سے ہوتے ہوئے گڑھی شاہو کے پاس ایک تنگ گلی میں موڑ دی. تھوڑی آگے جا کر ایک پارکنگ تھی. میں نے بورڈ پڑھا تو چونک گیا ‘آپ مجھے میاں میر کے مزار پر لے آیئں ہیں؟ یہاں کیا ہے؟’ ‘تم اترو تو سہی’مزار کے باہر ہی جوتیوں کی نگرانی کرنے والے کا سٹال تھا. ہم وہیں ایک لکڑی کے تختے پر بیٹھ کر جوتے اتارنے لگے. مجھے نگرانی کرنے والی بابا جی کی شخصیت بڑی اچھی لگی. سادہ سا کرتا پاجامہ اور شکل پر بڑی خوبصورت اور دل موہ لینے والی مسکراہٹ .شہناز؟’ میں نے میڈم کو مخاطب کیا تو وہ جوتی کا سٹریپ کھولتی کھولتی رک گیئں’ ‘کیا ہوا سوہنے؟’ .میرا بڑا جی چاہتا ہے کہ……’ میں نے سوچتے ہوئے کہا’ .ہاں نا بول میرے سوہنے!’ انہوں نے میرے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا’ میرا بڑا جی چاہتا ہے کہ

میں بس یہیں بیٹھ جاؤں، مزار کے دروازے کے باہر. بس یہیں بیٹھا رہوں اور لوگوں کی جوتویاں سیدھا کرتا رہوں .ہائے میں مر نا جاواں!’ انہوں نے پھر سے دل پکڑ لیا’.لگتا ہے شہناز، لڑکے کے دل پرکوئی بڑی گہری چوٹ لگی ہے.’ جوتیوں والے بابا جی نے مسکراتے ہوئے کہا. ‘دل نرم ہوگیا ہے اس کا میڈم کچھ نا بولیں اور میرا ہاتھ پکڑے مزار میں داخل ہوگیئں وہ میرا میاں میر کا مزار دیکھنے کا پہلا موقع تھا. دیکھنے میں عام سے مزاروں کی طرح تھا. کھلا وسیع و عریض ماربل کی ٹائلوں سے ڈھکا احاطہ اور اس کے بیچوں بیچ چھوٹی سی اور ایک نسبتاً بلند چبوترے پر مزار کی سفید عمارت. احاطے کی ایک طرف ایک قبرستان تھا اور دوسری طرف لائبریری اور ایک مسجد. احاطے میں دو بوڑھے برگد کے درخت بھی تھے جن کی گھنی چھاؤں کی ٹھنڈک، جون کی دہکتی گرمی میں، دیکھنے میں بڑی پرکشش لگ رہی تھی. مزار کی عمارت پر اور احاطے میں ہر طرف کبوتر ہی کبوتر تھےوہ تھا تو ایک عام سا مزار ہی لیکن میرے لئے بہت مختلف ثابت ہوا. ایک تو اندر جاتے ہی یوں محسوس ہوا کہ شہر کا شوروغوغا اور گرمی اوردھول دور کہیں گم ہوگئے ہوں. مزار کے احاطے کے اندر بس یا تو ایک خنک سا سکون آمیز سکوت تھا اوریا پھر کبوتروں کے پروں کی نرم پھڑپھڑاہٹ. مجھے یک دم یوں لگا کہ میں کسی کی عافیت بھری آغوش میں سمٹ گیا ہوں یہاں بھلا کون دفن ہے؟’ میں نے قبرستان کی

طرف دیکھتے ہوئے میڈم سے پوچھا’ بہت بڑے بڑے لوگ دفن ہوتے ہیں یہاں. ٹھیک ٹھاک بڑی سفارش چاہئے ہوتی ہے محکمہ اوقاف میں یہاں قبر کی جگہ لینے کیلئے میڈم نے ایک عورت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا. وہ کالی چادر میں لپٹی ہوئی ایک قبر کے سرھانے بیٹھی تھی اور شاید اس کی آنکھوں سے آنسو بھی بہ رہے تھے. عمر تو خاصی تھی مگر اس عمر میں بھی اس کی ذات کا سوگوار حسن اور وقار نمایاں تھا. میں نے غور سے دیکھا تو اس کے نین نقش کچھ دیکھے ہوئے سے لگے ارے یہ تو وہ ہے وہ ……! بہت مشہور ایکٹریس تھیں یہ.’ میں نے اپنی یاداشت پر انگلی سے دستک دی. مگر میڈم نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ کر چپ کرا دیا ‘نا نا سوہنے! پردہ رکھتے ہیں’ہم دونوں نے مزار پر کھڑے ہو کر فاتحہ پڑی اور پھر قبرستان کے ساتھ والے برگد کے نیچے آ کر ساتھ ساتھ بیٹھ گئے. تھوڑی دیر ہم دونوں خاموش رہے. پھر انہوں نے میرا ہاتھ دبایا اور کہاپھر تیرا دل توڑ ہی دیا نا شمع نے؟’ میں نے ڈبڈبائی نظروں سے ان کی طرف دیکھا اور میرا ضبط پھر سے جواب دے گیا. میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا. پتہ نہیں کس کس بات کا غم تھا جو آنکھوں سے سیال بن کر بہ رہا تھا. شمع کی بے وفائی کا دکھ تھا یا والدین کی نا فرمانی کا؟ یا پھر اپنے ہی ہاتھوں اپنی ہی عزت نفس کا خون کرنےکا غم تھا. بس میں روتا رہا.

میڈم کچھ نا بولیں، نا مجھے رونے سے روکا. بس تھوڑی دیر کے بعد میرا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور میرے بال سہلاتی رہیںپتہ نہیں میں کتنی دیر ان کی گود میں سر رکھ کر روتا رہا. آنسو خشک ہوگئے لیکن پھر بھی میرا دل ان کی گود سے سر نکالنے کونہیں چاہا. مگر وہ میرے بال سہلاتی رہیں. پھر آہستہ آہستہ انہوں نے کچھ گنگنانا شروع کر دیا. میں نے غور کیا تو غالباً کوئی کافی گا رہی تھیں وے ماہیا تیرے ویکھن نوں، چک چرخہ گلی دے وچ ڈاہ واں تے لوکاں پانے میں کت دی، تند تیریاں یاداں تے پاواںتھوڑی دیر بعد میرے چہرے پر گرم پانی کے دو ایک قطرے گرے تو مجھے احساس ہوا کہ میڈم بھی رو رہی تھیں. میں بے چین ہو کر اٹھ گیا‘آپ کو کیا ہوا ہے؟ کیا آپ کا بھی دل کسی نے توڑا تھا؟’دل تو سب کا ٹوٹا ہوتا ہے سوہنے.’ انہوں نے آنکھیں اپنے دوپٹے سے پونچھتے ہوئے کہا. ‘جس کے سینے سے کان لگاؤ، چھن چھن کی آواز ہی آئے گی.یہ محبوب کو ماہیا کیوں کہتے ہیں؟’ میں نے ان کا دھیان بٹانے کو پوچھا’ماہیا لفظ مچھلی سے نکلا ہے. محبت کرنے والوں اور محبت کے درمیان وہ ہی تعلق ہوتا ہے جو مچھلی اور پانی کے درمیان ہوتا ہے. جیسے پانی نا ملے تو مچھلی تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہے، بالکل ویسے محبت نا ملے تو محبت کرنے والے تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیںلیکن آپ کا ماہیا کون تھا؟’ میں نے پوچھا.

مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایسی عورت سے بھی کوئی محبت کر سکتا تھا.میرا ماہیا میری خواہش ہے.’ انہوں نے بوجھل لہجے میں کہا’.کیسی خواہش؟’ میں نے حیرت سے پوچھا’چاہے جانے کی خواہش.’ میڈم نے فضاء میں گھورتے ہوئے کہا. اس لمحے ان کے چہرے پر میں نے بالکل وہ ہی روشنی دیکھی جیسی معصوم بچوں کے چہروں پر ہوتی ہےمیرا بڑا دل کرتا ہے سوہنے کہ کوئی مجھ سے بھی محبت کرے. میری یاد میں آنسو بہائے. مجھے یاد کر کر کے روئے اور پھر میرے لئے سچے اور محبت بھرے دل سے خدا سے دعا مانگے. بڑی چھوٹی سی خواہش ہے پر پوری ہی نہیں ہوتی. ساری عمر گزر گئ پر خدا کو مجھ گنہگار پر ترس ہی نہیں آتامیں ان کو تسلی دینا چاہتا تھا مگر مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کے کیا کہوںتم…….’ انہوں نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بڑے اشتیاق سے پوچھا. ‘تم میری یہ خواہش پوری نہیں کر سکتے؟میں؟’ میں نے چونک کر پوچھا. ‘بھلا میں کیسے آپ کی یہ خواہش پوری کر سکتا ہوں؟ مجھے تو آپ سے محبت ہے ہی نہیںوہ تھوڑی دیر میرے چہرے کی طرف بڑے پیار سے دیکھتی رہیں اور پھر ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہنے لگیں‘ہاں کہتے تو تم صحیح ہی ہو. ایسے تھوڑی محبت ہو جاتی ہے’ہم تھوڑی دیر اور مزار پر رکے. جب سورج غروب ہونے لگا تو جانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے. مزار کے دروازے سے باہر نکل ہی رہے تھے کہ اچانک میڈم نے میرا ہاتھ پکڑ کر روک لیا‘

سوہنے میری ایک خواہش تم ضرور پوری کر سکتے ہو’.وہ کیا؟’ میں نے پوچھا’‘جب میں مر جاؤں نا تو مجھے لا کر یہیں اس مزار کے احاطے میں دفن کر دینا’‘یہ کیسے ہو سکتا ہے؟’ میں حیران رہ گیا. ‘یہاں تو آپ نے خود بتایا کہ بڑے بڑے لوگ دفن ہوتے ہیں’ تم اس کی فکر نا کرو.’ انہوں نے مسکرا کر کہا. ‘بس جب میں مر جاؤں تو یہاں آ کر مائی کبوتراں والی کو اطلاع دے دینا. وہ خود سارا بندوبست کر لے گی ‘مائی کبوتراں والی؟’ میں نے چونک کر پوچھا. ‘وہ کون ہے اور کہاں ملے گی؟’ بس ہے ایک. یہیں مزار پر رہتی ہے اور کبوتروں کا خیال رکھتی ہے. لوگ اسے باؤلی سمجھتے ہیں مگر ہے وہ بہت سوں سے زیادہ ہوشمند. جب آ کر اسے اطلاع دینی ہوگی تو تمھیں وہ یہیں کہیں بیٹھی مل جائے گی میں کچھ نا بولا، بس اثبات میں سر ہلا دیا مزار کے احاطے سے باہر نکلے تو مجھے یاد آیا کہ میرے پاس تو رہنے کی کوئی جگہ نہیں تھی شہناز؟’ میں نے گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے اس کو مخاطب کیا تو وہ میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگیں. ‘شہناز! میں کہاں جاؤں؟ .وہیں جہاں سے آئے تھے. اپنی دنیا میں واپس.’ انہوں نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا’ پر کیسے جاؤں؟ میں نے اپنی واپسی کے تمام دروازے بند کر دیے تھے.’ میں بے چارگی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا دروازے کبھی بند نہیں ہوتے سوہنے. بس واپس جانے کی خواہش ہونی چاہئے.’ انہوں نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا. ‘آؤ بیٹھو گاڑی میں. میں بتاتی ہوں

کیسے کھولنا ہے واپسی کا دروازہ گاڑی میرے گھر کے گیٹ کے سامنے رکی تو میں چونک گیا نہیں شہناز نہیں! آپ میرے باپ کو نہیں جانتیں. میں نے ان کے ساتھ بہت بدتمیزی کی تھی. وہ کبھی مجھے واپسی کی اجازت نہیں دیں گے تمھیں کچھ نہیں پتہ سوہنے.’ انہوں نے ہنس کر کہا. ‘تمھارے ماں باپ کو سب پتہ ہے اور وہ تمہارا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں. جاؤ بے فکر ہوکر جاؤ میں پھر بھی بیٹھا رہا تو شہناز نے اتر کر گھنٹی بجائی. ابا جی باہر نکلے اور پھر مجھے دیکھ کر بیتابی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر مجھے باہر کھینچ لیا ‘کہاں چلے گئے تھے یار مجھے چھوڑ کر؟ کہاں چلے گئے تھے؟’ وہ بس یہ کہتے رہے، میرے سر کو چومتے رہے اور اپنی مہربان آغوش میں سمیٹے روتے رہے سب کچھ پہلے جیسا ہوگیا. میں دن بھر دوکان پر بیٹھتا اور پھر گھر واپس چلا جاتا. ہاں باقائدگی سے ہر ہفتے یا تو میں شہناز کے گھر چلا جاتا یا وہ مجھے لینے آ جاتیں. ہم دونوں میاں میر کے مزار پر چلے جاتے. کبھی ڈھیر ساری باتیں کرتے، کبھی خاموش بیٹھے رہتے. لیکن بس مجھے ان کی موجودگی سکون دیتی. ہاں ہر دفعہ وہ اپنے ماہیے کو یاد کر کے ضرور روتیں اور پھر آخر میں مجھ سے اپنی مزار کے احاطے میں دفن ہونے والی خواہش کا ضرور اظہار کرتیں. میں ہر دفعہ مائی کبوتراں والی کا پوچھتا اور وہ ہر دفعہ مجھے ٹال دیتیں مجھے آہستہ آہستہ یہ احساس ہوگیا کہ شہناز اندر سے ایک بہت دکھی لیکن ایک بہت خوبصورت انسان تھیں.

میں نے اس بات کو ان کے پیشے کے تناظر میں سمجھنے کی بہت کوشش کی مگر سمجھ نہیں پایا. ان سے اس لئے نہیں پوچھا کہ کہیں ان کا دل نا دکھ جائے اسی طرح وقت گزرتا چلا گیا. پہلے ابا جی کا انتقال ہوا اور پھر اماں بھی ایک دن مجھے چھوڑ کر چلی گیئں. میں دنیا میں اکیلا رہ گیا لیکن شادی نہیں کی. پتہ نہیں کیا بات تھی لیکن شمع کے بعد دل کہیں نہیں ٹھہرا. آہستہ آہستہ مجھے تنہائی کی عادت سی ہونے لگی. لیکن تنہا کہاں تھا میں. شہناز تھیں میرے پاس. میری دوست، میری ہمدرد اور میری غمگسارمجھے ابھی تک یاد ہے. وہ یکم دسمبر کا دن تھا. دوکان پر بیٹھا تھا کہ شہناز کے چوکیدار کی کال آ گئ سرآج صبح میڈم کو دل کا دورہ پڑا تھا. ہسپتال لے کر گئے. ڈوکٹروں نے بڑی کوشش کی مگر کچھ نا ہو سکا. وہ ابھی کچھ دیر پہلے انتقال کر گیئں. بس آپ کو خبر دینے کا کہا تھا میرے تو کانوں میں سیٹیاں بجنی شروع ہوگیئں. کچھ دیر تک تو یقین ہی نہیں آیا کہ یوں مجھ سے میرا واحد دوست اور رفیق بچھڑ جائے گا. پھر پانی کے ایک دو گلاس پئے، چوکیدار کو دوبارہ فون کر کے ضروری ہدایت دیں اورخود شہناز کی ہدایت کے مطابق گاڑی نکالی اور میاں میر کی طرف چل پڑا مزار کے احاطے میں داخل ہوا اور ابھی کسی سے مائی کبوتراں والی کا پوچھنا ہی چاہ رہا تھا کہ خود سے ہی اس پر نظر پڑ گئ. پہلے تو کبھی اس سے ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن حلیے سے سمجھ گیا کہ

وہ مائی کبوتراں والی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتی تھی بہت بوڑھی عورت تھی. اتنی بوڑھی کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں اسقدر بوڑھی عورت نہیں دیکھی تھی. وہ کالا لباس پہنے احاطے میں اسی برگد کے نیچے اسی چبوترے پر بیٹھی تھی جہاں میں اور شہناز بیٹھا کرتے تھے. کالا لباس صرف میرا اندازہ تھا کیونکہ اس کے کندھوں پر، سر پر، گود میں اور ادھر ادھر کبوتر ہی کبوتر غٹرغوں کرتے پھر رہے تھے. مائی کی گود میں پلاسٹک کا ایک شاپر تھا جس میں سے وہ ہر تھوڑی دیر کے بعد مٹھی بھر کر جوار کے دانے نکالتی اور سامنے فرش پر بکیھر دیتی میں اس کے قریب جا کر کھڑا ہوگا. گہرے گندمی رنگ کی عورت تھی. اس کے چہرے پر بیشمار جھریاں تھیں اور ان جھریوں کے درمیان اسکی کالی سیاہ آنکھیں چمک رہیں تھیں. پھر اس نے کبوتروں پر سے نظر اٹھائی اور میری طرف دیکھا ‘چلی گئ وہ؟’ .جی؟’ میں چونک گیا’ ‘بس فکر نا کر. جا اس کا جنازہ لے آ شاباش. میں سب انتظام کر لوں گی’، میں کچھ نا بول سکا. جن قدموں آیا تھا انھیں قدموں لوٹ گیا جنازہ لاتے لاتے عصر کا وقت ہوگیا. جنازہ کیا تھا، بس میں تھا اور میری دوکان کے تین ملازم. ایمبولینس سے اتار کر میّت اندر لے گئے. عصر کی نماز کے بعد نماز جنازہ پڑھائی گئ اور پھر وہیں اسی احاطے کے قبرستان میں شہناز کو دفنا دیا گیا تدفین کے بعد میں نے اپنے ملازموں کو رخصت کیا اور خود وہیں مائی کبوتراں والی کے پاس برگد کے

نیچے بیٹھ گیا مائی چپ چاپ بیٹھی اپنے کبوتروں کے لاڈ اٹھا رہی تھی. میں بھی بیٹھا ادھر ادھر دیکھتا رہا. اٹھ کر جانے کو دل ہی نہیں کر رہا تھا. مجھے احساس ہو چکا تھا کہ شہناز کے رخصت ہونے کے بعد میں دنیا میں بالکل اکیلا رہ چکا تھا مجھے مزار کے احاطے کے سفید پتھروں پر اچھل کود کرتے سفید کبوتر اچھے لگ رہے تھے. ان کی معصوم حرکتوں میں اور پروں کی نرم پھڑپھڑاہٹ میں بہت سکون تھا. اتنے میں ایک کبوتر کہیں سے اڑتا ہوا آیا اور آ کر مزار کے گنبد پر بیٹھ گیا. اس نے گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھا اور پھر پر پھیلائے، اپنی جگہ سے اڑان بھری اور آ کر سیدھا میری گود میں بیٹھ گیا مجھے اپنی زندگی میں کبھی بھی جانوروں یا پرندوں سے دلچسپی نہیں رہی تھی. لیکن وہ کبوتر اسقدر خوبصورت اور معصوم تھا کہ میں نے بے اختیار اس کے پروں پر پیار سے ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا کیا کر رہا ہے سوہنے؟’ مائی نے اچانک پوچھا تو میں چونک گیا. اس نے بالکل شہناز کے انداز میں مجھے سوہنا کہا تھا .وہ بھی تو تجھے سوہنا کہتی تھی نا؟’ اس نے مسکرا کر پوچھا’ ‘ہاں! لیکن کیا آپ کو اس نے میرے بارے میں بتایا تھا؟’ لو کر لو بات! میں بھی تو یہیں ہوتی تھی نا مزار پر. تم لوگوں کے آس پاس. مائی کو سب نظر آتا ہے.’ اس نے ہنس کر کہا .لیکن میں نے تو کبھی آپ کو یہاں نہیں دیکھا.’

میں نے حیرت سے پوچھا’ ‘تو مجھے چھوڑ، اپنی بتا سوہنے. کیا کر رہا ہے؟’ میں؟’ میں نے اپنی گود میں کھیلتے کبوتر کی طرف دیکھا. ‘کبوتر دیکھ رہا ہوں. عام سا کبوتر ہے لیکن کتنا معصوم ہے ‘میرا بچہ!’ مائ کبوتراں والی نے مسکرا کر کہا. ‘ہر خواہش معصوم ہوتی ہے’ ‘خواہش؟’ میں نے حیرت سے مائی کی طرف دیکھا. ‘میں کبوتر کی بات کر رہا ہوں مائی’ ‘ہاں تو میں بھی تو اسی کی بات کر رہی ہوں. یہ عام کبوتر نہیں ہے. یہ مزار کا کبوتر ہے’ عام سا تو لگتا ہے مائی.’ میں نے بھی کبوتر کے نرم پروں پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اور اس کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا. ‘اس میں بھلا کیا خاص بات ہے؟ .کبھی سوچا ہے تو نے کہ مزاروں پر اتنے کبوتر کیوں ہوتے ہیں؟’ مائی نے گردن میری طرف موڑ کر دیکھا’ کیوں ہوتے ہیں؟ مزاروں کا کبوتروں سے کیا تعلق ہوتا ہے مائی؟’ میں نے اس کی کالی چمکتی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا ہوتا ہے تعلق. بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے سوہنے.’ مائی نے شاپر میں ہاتھ ڈالا،مٹھی بھر جوار نکالی اور سامنے فرش پر بکیھر دی. تمام کبوتر دانوں کے گرد اکٹھے ہوگئے. لیکن میری گود میں بیٹھا کبوتر وہیں بیٹھا رہا. اس کو بظاہر دانوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی یہ کبوتر نہیں ہیں بلکہ نا آسودہ خواہشات ہیں. جب بھی کوئی مزار پر آنے والا اور دعا مانگنے والا مرتا ہے اور اپنی خواہش پوری ہوئے بغیر مرتا ہے تو اس کی خواہش کبوتر بن کر مزار پر اڑتی رہتی ہے، بھٹکتی رہتی ہے.’ مائی نے کبوتروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا. ‘میں یہاں ان معصوم خواہشات کی نگہبانی کرتی ہوں .

کب تک یہ کبوتر مزاروں پر بھٹکتے ہیں؟’ میں نے سوچا کہ لوگ واقعی مائی کو ٹھیک باؤلی کہتے ہیں جب تک خواہش پوری نا ہو جائے. جب پوری ہوجاتی ہے تو یہیں کسی کونے کھدرے میں جان دے دیتے ہیں. اسی قبرستان میں ہزاروں کبوتر دفن کئے ہیں میں نے.’ مائی نے قبروں کی طرف اپنے استخوانی ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا میں کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ اچانک مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر مغرب کی اذان گونج اٹھی. بہت دیر ہو چکی تھی. لیکن میں گھر جانے سے پہلے شہناز کی قبر پر دعا کرنا چاہتا تھامیں جب اٹھا اور قبر کی جانب بڑھا تو وہ کبوتر میری گود سے نکل کر میرے کندھے پر جا کر بیٹھ گیا. مجھے بھی اس کو زبردستی اڑانا اچھا نہیں لگا. میں قبر کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا اور دعا کرنے لگا. مجھے پھر سے اپنے دنیا میں بالکل اکیلے رہ جانے کا احساس ہوا. مجھے شہناز کی گود میں سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونا یاد آیا. اس کا پیار سے اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرنا یاد آیا. پھر اچانک سے مجھ پر یہ راز افشاء ہوا کہ مجھے شہناز سے محبت تھی. میں کب اور کیسے لگاؤ اور احترام کی سیڑھیاں چڑھ کر اس کی محبت کے برج پر پہنچ گیا، مجھے پتہ ہی نہیں چلااس بات کو سمجھنا تھا کہ مجھے اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی اور میں میں بے اختیار وہیں کچی قبر کے سرہانے بیٹھ کر اور دھاڑیں مار مار کر رونا شروع ہوگیا. وہ صرف میری دوست نہیں تھی، وہ میری محبوب بھی تھی. مجھے اس کا محبت کی درخواست کرنا یاد آیا. مجھے یاد آیا کہ میں نے کیسے اس کی بات کو بے حسی سے ٹال دیا تھا. مجھے اس کا خیال کرنا یاد آیا، اس کا سمجھانا یاد آیا اور اس کا سوہنے کہنا یاد آیامیں روتا جاتا تھا اور میرے آنسو میرے ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان سے پھسلتے اس کی قبر کی مٹی پر گر کر جذب ہو رہے تھے. اتنے میں وہ کبوتر میرے کندھے سے آہستگی سے اترا اور قبر کے سرہانے بیٹھ گیا. کچھ دیر میری روتی آنکھوں کی طرف دیکھتا رہا اور پھر وہیں گر گیا اور اس کی گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.