
سائنسدانوں نے جب اس پر تحقیق کی تو کیا حقیقت سامنے آگئی
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے عصاءسے سمندر کے پانی کو دو حصوں میں کاٹ دیا اور ان کی قوم سمندر کے بیچ بننے والے اس راستے پر چلتی ہوئی آگے نکل گئی جبکہ ان کا تعاقب کرنے والی فرعون کی فوج نے جب اسی راستے کو استعمال کرنے کی کوشش کی تو
دونوں جانب سے سمندر کا پانی مل گیا اور ظالم فوج سمند ر میں غرق ہو گئی، اور یوں موسیٰ علیہ السلام کے اس معجزے کی بدولت ان کی قوم نے فرعون کے ظلم و ستم سے نجات پائی۔ یہ واقعہ مذہبی کتب کے علاوہ تاریخ کی کتابوں میں بھی ملتا ہے مگر سائنسدان تاحال اسے ایک افسانہ ہی سمجھتے رہے، البتہ ماہرین آثار قدیمہ اور محققین نے اب پہلی سمندر کی تہہ میں کچھ ایسے شواہد دریافت کر لئے ہیں کہ مغرب کے نامور سائنسدان بھی اس واقعے کو حقیقت ماننے پر مجبور ہو گئے ہیں۔اخبار ڈیلی سٹار کی رپورٹ کے مطابق سویڈن کے سائنسدان ڈاکٹر رینارٹ مولر تحقیق کاروں کی ایک ٹیم کو لے کر بحیرہ احمر کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ ڈاکٹر مولر کی ٹیم نے مصر کے ساحل پر ایک مخصوص مقام سے سمندر کی تہہ میں قدیم آثار کی تلاش کا سلسلہ شروع کیا اور وہ تمام حیرتناک شواہد اپنی آنکھوں سے دیکھے جو قدیم معجزے کی گواہی آج بھی دے رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس سمندر کی تہہ میں آج بھی ٹوٹے پھوٹے رتھ بکھرے پڑے ہیں، جن کے پہیے سونے کے ہیں اور ان کے آس پاس ہزاروں سال پرانی تلواریں اور دیگر قدیم ہتھیار بھی بکھرے پڑے ہیں۔ جہاں قدیم دور کے رتھ اور ہتھیار ملے ہیں وہیں ہڈیاں بھی بڑی تعداد میں اکٹھی ملی ہیں۔ ڈاکٹر مولر کا کہنا ہے کہ ان اشیاءکا اس کے سوا کیا مطلب ہوسکتا ہے کہ یہ فرعون کی فوج کے رتھ ہیں اور ہڈیاں فرعون کے فوجیوں اور ان کے گھوڑوں کی ہیں۔ انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی جس کا نام The Exodus Case ہے۔ڈاکٹر مولر کی تحقیق اس سے پہلے کی گئی مشہور ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر ران وائٹ کی تحقیق پر بھی مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ ڈاکٹر ران وائٹ کا کہنا تھا کہ انہوں نے فرعونی فوج کے رتھوں اور سمندر کی تہہ میں پڑی باقیات کو خود دیکھا تھا اور اس کے تصویر شواہد بھی اکٹھے کئے تھے۔
Leave a Reply