عوام کے دلوں پر عمران خان کی حکومت کب کی ختم ہو گئی ، یقین نہیں آتا تو خان صاحب کسی دن میرے ساتھ راولپنڈی کے راجہ بازار یا لاہور کے انارکلی بازار کا چکر لگا لیں ، ساری غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی۔۔۔۔۔ حامد میر کا وزیراعظم عمران خان کو چیلنج

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار حامد میر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عمران خان نے پچھلے دنوں کہا کہ فارن فنڈنگ کیس کی سماعت ٹی وی کیمروں کے سامنے کرائی جائے لیکن پھر خاموشی چھا گئی اور الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ اسکروٹنی ٹی وی کیمروں کے سامنے نہیں ہو سکتی۔

عمران خان یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکا میں قائم کی جانے والی عمران خان ڈویلپمنٹل اکیڈیمک ریسرچ (اکدار) کے اکائونٹس اور دفاتر کی بھی تحقیقات شروع ہو چکی ہیں۔ اِس ادارے کا اعلان عمران خان نے خود کیا تھا۔ اِس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں اُنہوں نے جمائما خان اور اپنے دونوں بیٹوں کو شامل کیا۔ اکدار کا امریکا میں دفتر ابھی تک عمران خان کے نام پر ہے لیکن گیارہ ستمبر 2019کو بورڈ آف ڈائریکٹر کے ایک رکن دبیر ترمذی کو تحریک انصاف سے نکال دیا گیا۔ اُن پر الزام تھا کہ وہ وزیراعظم پاکستان کے نام کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں۔ اِس ادارے کی تقریبات میں وفاقی وزراء اور واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کا عملہ شریک ہوتا رہا۔ اچانک اِس ادارے کی سرگرمیاں کم کر دی گئی ہیں۔ کیا کوئی عظمت سعید بتائے گا کہ یہ اکدار کا کیا معاملہ ہے؟حال ہی میں عمران خان کے وزیر توانائی عمر ایوب خان نے بجلی مہنگی کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ میں یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ بجلی مہنگی کرنے کی وجہ سابقہ حکومت کی پالیسیاں ہیں۔ عمر ایوب نے یہ بیان اپنی حکومت کے اڑھائی سال مکمل ہونے پر دیا۔ حکومت کی آدھی مدت گزر چکی اور عمر ایوب ابھی تک مہنگائی کی ذمہ داری پچھلی حکومتوں پر ڈال رہے ہیں۔ ہمیں پچھلی حکومتوں کا دفاع نہیں کرنا کیونکہ براڈ شیٹ اور ابراج گروپ کے ساتھ ہمارے پچھلوں کا بھی بڑا تعلق رہا ہے لیکن عمر ایوب خان کا تو ان پچھلوں سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ وہ مسلم لیگ (ن) میں بھی شامل تھے اور

مسلم لیگ (ق) میں بھی شامل تھے۔ وزیر خزانہ حفیظ شیخ کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں وزیر خزانہ تھے۔ شاہ محمود قریشی مسلم لیگ (ن) اور بعد میں پیپلز پارٹی میں رہے۔ پرویز خٹک نے تو سیاست ہی پیپلز پارٹی سے شروع کی۔ غلام سرور خان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) سے ہو کر تحریک انصاف میں آئے۔ فہمیدہ مرزا بھی پیپلز پارٹی کی دریافت ہیں۔ خسرو بختیار اور صاحبزادہ محبوب سلطان مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ ن کو بھگتا کر آئے۔ آج کل عمران خان کو پرویز مشرف بڑے بُرے لگنے لگے ہیں کیونکہ انہوں نے ماضی کے حکمرانوں کو این آر او دیئے لیکن شیخ رشید احمد، فروغ نسیم، محمد میاں سومرو، زبیدہ جلال، فواد حسین اور اعجاز شاہ کون ہیں؟ کیا یہ سب مشرف کے ساتھی نہیں؟ کیا اعظم سواتی چند سال پہلے تک مولانا فضل الرحمٰن کے گیت نہیں گاتے تھے؟ عمران خان مانیں یا نہ مانیں، اُن کے اردگرد اکثریت مشرف، زرداری اور نواز شریف کے ساتھیوں کی ہے۔ عمران خان کی حکومت اور پچھلی حکومتوں میں زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔ اصل حکومت وہ نہیں ہوتی جو اسلام آباد میں اقتدار کے ایوانوں میں قائم ہوتی ہے، اصل حکومت وہ ہوتی ہے جسے عوام دل سے قبول کرتے ہیں۔ عوام کے دلوں پر حکومت تو کب کی ختم ہو گئی۔ یقین نہ آئے تو عمران خان میرے ساتھ کسی دن راولپنڈی کے راجہ بازار، لاہور کی انار کلی یا کراچی کے طارق روڈ پر چلیں۔ سب غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.