
ریاست مدینہ کا دعویٰ کرنے والے اول درجے کے جھوٹے ، انکی اصلیت جاننے کے لیے ایک ہی مثال کافی ہے ۔۔۔۔۔ عارف نظامی کا تہلکہ خیز تبصرہ
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار عارف نظامی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ویسے تو اس بات کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے کہ موسوی کی فرمائش پوری کرتے ہوئے اسے اتنی خطیر رقم کیوں تھما دی گئی اور اس میں کس کس کا حصہ تھا۔ جہاں تک سربراہ کمیٹی کی تقرری کا تعلق ہے
اس پر نظرثانی کی جانی چاہیے کیونکہ وہ اپنا کام شروع کرنے سے پہلے ہی متنازعہ ہو گئے ہیں۔ اول تو اس کمیٹی کی ضرورت ہی نہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہاں بدعنوانی کی تحقیقات کرتے کرتے خوردبرد ہونے والے سرمائے سے زیادہ پیسے چوری ڈھونڈنے کے میکنزم کے اللوں تللوں پر لگ جائیں گے۔ خان صاحب نے درست طور پر یہ بھی کہا کہ براڈ شیٹ جنرل پرویز مشرف کے ذہن کی اختراع تھی، اس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس کا مقصد تو نواز شریف اور دوسرے سیاستدانوں کو بے نقاب کرنا تھا لیکن جب نواز شریف کی 2000ء میں ڈیل ہوگئی تو بدعنوانی کی تحقیقات کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی بلکہ حکومت پاکستان کی طرف سے دوسو سے زائد افراد کی جو لسٹ دی گئی تھی ان میں سے جو جتنا زیادہ بدوعنوان تھا اسے اتنا ہی نواز دیا گیا۔ مشرف ماڈل کو آگے بڑھاتے ہوئے اس وقت پی ٹی آئی کے اتحاد یوں کی ٹیم کی واضح اکثریت کا تعلق انہی افراد سے ہے جنہوں نے ڈانگوں کے گز مال تقسیم کیا اور یہ انتہائی ڈھٹائی سے میڈیا اور پارلیمنٹ میں کہتے ہیں کہ جو بھی خرابی ہے وہ سابق حکومت کی نااہلی اور بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ مثلاً بجلی مہنگی کرنے اور ایل این جی نایاب ہونے کے ذمہ دار وفاقی وزیربرائے توانائی، پٹرولیم وقدرتی وسائل عمر ایوب اور مشیر برائے پٹرولیم ندیم بابرمیاں نواز شریف کی حکومت میں شامل تھے بلکہ ندیم بابر کا تعلق تو بہت قریبی تھا۔ اب یہی لوگ بڑے دھڑلے سے ملبہ ان پر ڈال دیتے ہیں۔ افسوسناک بات ہے کہ مدینے کی ریاست بنانے کے دعویدار کہتے ہیں کہ انقلاب آنا بھی شروع ہو گیا ہے اور قریباً ہر روز اپنے ترجمانوں کو بلا کر ہدایات دیتے ہیں۔
Leave a Reply