
کھوکھر پیلیس اور خواجہ آصف کی ہاؤسنگ سکیم گرتے دیکھ کر مجھے تو ایک ہی خیال آتا ہے ۔۔۔۔۔ تجاوزات کے خلاف عمران حکومت کےسرگرم ہونے پر سہیل وڑائچ کا حیران کن تبصرہ
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کھوکھر پیلس لاہور اور خواجہ آصف کی سیالکوٹ ہائوسنگ اسکیم کا دفتر گرتے دیکھ کر یقین ہو گیا کہ ہم دائروں میں گھوم رہے ہیں، نہ ہماری کوئی منزل ہے اور نہ کوئی مقصد۔ یادش بخیر 13سال پہلے 2008 میں شہباز شریف پنجاب
کے حکمران تھے اور جسٹس خلیل رمدے عدالتِ عظمیٰ کے منصف، اُس زمانے میں جسٹس رمدے نے لاہور کی بلند و بالا عمارتوں اور پلازوں کو گرانے کا حکم دیا۔وزیراعلیٰ شہباز شریف نے آئو دیکھا نہ تائو، کرینوں اور بلڈوزروں کو بھیج کر بڑے بڑے پلازوں کو گرانا شروع کردیا۔ لوگ سربفلک عمارتوں کو ٹوٹتا دیکھتے تو تالیاں بجاتے۔ غریب اور بےکس سمجھتے کہ محل اور پلازے گرنے کا مطلب ہے کہ امیروں کی طاقت اور غرور ٹوٹ رہا ہے۔اُسی زمانے میں ایک اہم مسلم لیگی رہنما نے اونچی عمارتوں کو گرانے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم ابھی کچھ تعمیر نہیں کر پائے لیکن امیروں کی عمارتوں کی تخریب سے ہم غریبوں اور ناداروں کو خوش کر رہے ہیں بلکہ اُس لیڈر نے کہا کہ غریب اور بےکس پلازے ٹوٹنے پر جو تالیاں بجاتے ہیں وہ دراصل ہمارے لئے داد ہے۔اُس فلسفے کے مطابق آپ مروجہ نظام کو تو توڑ نہیں سکتے مگر چند اینٹیں اور کنکریٹ توڑ کر آپ غریبوں کا کتھارسس کر دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جب عام شکل و صورت کا ہیرو سلطان راہی دیہاتی لباس تہبند اور کرتا پہنے ہوئے مولا جٹ بن کر ظالموں کو للکارتا تو سینما میں اگلی نشستوں پر بیٹھنے والے غریب خوشی سے نعرے لگاتے ، وہ بھی کتھارسس ہوتا تھا۔ عمران خان کی حکومت میں وہی عمل دوبارہ شروع کردیا گیا ہے۔شاید ایک بار حکومت کے حق میں تالیاں بجوانا مقصود ہے یا پھر مہنگائی اور بےروزگاری میں غریب عوام کا کتھارسس کیا جارہا ہے۔ یہ دائروں کا سفر ہے، واقعی احتساب ہے،
سیاسی تماشا ہے، کتھارسس ہے یا کچھ اور۔ یہ زیادہ دیر چلنے والا نہیں۔13سال پہلے شہباز شریف اور جسٹس رمدے نے جو عمارتیں گرائی تھیں اُن میں سے اکثر 13سال بعد وہیں، اُسی حالت میں ٹوٹی پھوٹی کھڑی آنسو بہا رہی ہیں، مجھے یاد ہے کہ 13سال پہلے شروع شروع میں تو پلازے گرنے پر تالیاں بجیں مگر جلد ہی حقیقت کھل کر سامنے آنے لگی کہ تعمیر، تخریب سے بہتر ہے۔آپ بعض اوقات تخریب سے تالیاں بجوا لیتے ہیں مگر یہ وقتی فائدہ ہوتا ہے، دور رس فائدہ صرف تعمیر کا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کے بعد شہباز شریف نے کبھی عمارتیں گرائی نہیں بلکہ بنائیں۔ عمران خان کیلئے بھی چند دن تو داد و تحسین کے ڈونگرے برسیں گے مگر پھر یہ تلخ تاہم حقیقی مثال سامنے آکھڑی ہوگی کہ تعمیر بہتر یا تخریب؟احتساب ہو، تجاوزات کو گرانے کا مسئلہ ہو، سرکاری زمینوں پر قبضے کا معاملہ، بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑنے کا مدعا ہو یا پھر ظالموں کی طاقت توڑنی ہو تو اُس کا موثر ترین طریقہ یہ ہے کہ احتساب گھر سے شروع کیا جائے، اگر پہلے اپنے گھر والوں کا احتساب ہو اور پھر دوسرے گھروں کا تو پھر اُس احتساب کو سب غیرجانبدارانہ اور منصفانہ قرار دیتے ہیں وگرنہ یکطرفہ احتساب ہمیشہ جانبدارانہ ہی کہلاتا ہے۔ماضی کا قصہ یاد آتا ہے، وفاقی وزیر حماد اظہر کے والد میاں محمد اظہر لاہور کے لارڈ میئر تھے، تجاوزات کے خلاف مہم چلانا چاہتے تھے، سب لوگوں کا خیال تھا کہ یہ مہم مخالفوں کی تجاوزات گرائے گی اور نون لیگیوں کی تجاوزات کو تحفظ فراہم کرے گی لیکن میاں اظہر نے تجاوزات ختم کرنے کی مہم کا آغاز ہی بیڈن روڈ پر میاں نواز شریف کے ماموں کی تجاوزات ختم کرکے کیا۔اُس کے بعد اُنہیں پورے لاہور میں تجاوزات گرانے میں مشکل پیش نہ آئی کیونکہ احتساب کا آغاز گھر سے کیا جائے تو کوئی مخالف بھی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ عمران خان کا قبضہ گروپوں کے خلاف اعلانِ لڑائی خوش آئند ہے لیکن اگر اُنہوں نے اِس پر غیرجانبداری نہ دکھائی تو کل کو یہ مہم بھی سیاسی انتقام کے زمرے میں شامل ہو جائے گی۔
Leave a Reply