
اسحاق ڈار کی واپسی کے لیے حکومت پاکستان کا برطانیہ سے معاہدہ ہو گیا
اسلام آباد (ویب ڈیسک) نیب کے ایسٹس ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر نے کہا نیب یا اس کے ایسٹس ریکوری یونٹ کی کارکردگی اچھی نہیں سراسر بے بنیاد بات ہے۔ اس یونٹ کی کوششوں سے گذشتہ دو سال میں اربوں روپے کی ریکوری ہو چکی اور ناجائز اثاثوں کا سراغ لگایا جا چکا ہے۔
اب ان اثاثوں کی ریکوری کیلئے قانونی کارروائی جاری ہے۔ پنجاب میں اس یونٹ نے اربوں روپے مالیت کی سرکاری زمین جس پر ناجائز طور پر قبضہ کیا گیا تھا چھڑا لی ہے۔ ان قبضہ گروپوں میں مسلم لیگ کے کئی با اثر لیڈر شامل ہیں۔ اپنے دفتر میں میڈیا سے بات چیت کرتے شہزاد اکبر نے کہا کہ ناجائز ذرائع سے بنائی گئی دولت اور اثاثوں کی واپسی کیلئے تگ و دو کی ضرورت ہے۔ ریکوری کے راستے میں ہمارا کریمنل جسٹس سسٹم بھی حائل ہے اور دوسرا بیرون ملک اثاثوں کی واپسی کیلئے ان ممالک کے قوانین بھی ریکوری میں تاخیر کا باعث بن رہے ہیں۔ ہم نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور سلمان شہباز کو پاکستان لانے کیلئے قانونی کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ برطانیہ کیساتھ سمجھوتہ ہو چکا۔ ہم نے ان کی ناجائز جائیدادوں کا سراغ لگایا ہے۔ ان کے دبئی میں بھی اثاثے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ اپوزیشن کا موقف ہے کہ آپ کے پاس بدعنوانی کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ہیں۔ اپوزیشن کو محض انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس پر شہزاد اکبر نے کہا کہ ہم نے بد عنوانی کے جو مقدمات دائر کئے ہیں، وہ شواہد کی بنیاد پر ہی کئے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے فیصلے ہو چکے ہیں اور کچھ کے ہونے والے ہیں۔ اپوزیشن کو ایڈوانٹج یہ ہے کہ اس کے لیڈر عدالتوں میں پیشی کے موقع پر حکومت اور نیب کیخلاف تقاریر کرتے ہیں اور میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے آپ کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نیب ان کا اس وقت جواب نہیں دیتا۔ جن کے خلاف ریفرنسز ہیں، اسمبلیوں میں بھی تقاریر کر کے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ براڈ شیٹ کے حوالے سے سوالات کا جواب دیتے شہزاد اکبر نے کہا کہ اس ادارے کو نیب نے تحقیقات کا ٹاسک دیا تھا لیکن جب شریف خاندان جنرل مشرف سے این آر او کر کے سعودی عرب چلا گیا تو وہ معاہدہ ختم ہو گیا۔ براڈ شیٹ کا کہنا ہے کہ حکومت نے اگر این آر او کیا ہے تو براڈ شیٹ کا کیا قصور ہے۔ ہم نے تو لوگوں کے ناجائز اثاثوں کا سراغ لگایا تھا، ہمیں معاہدے کے مطابق کمیشن دیا جائے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ جو 28 ملین ڈالر یا اس سے زیادہ رقم لندن کی عدالت کے فیصلے کے تحت ادا کئے جانے ہیں، پیپلز پارٹی اور نواز شریف کے ادوار میں براڈ شیٹ کو سمجھوتے کے مطابق رقم نہ دی گئی۔ الٹا پیپلز پارٹی کے دور میں براڈ شیٹ کی رقم کسی اور کمپنی کو دیدی گئی۔ وہ رقم بھی حکومت کے کھاتے میں پڑ گئی۔ پی پی پی اور پی ایم ایل این کی حکومتوں نے اس معاملے کو دبائے رکھا اور رقم بڑھ کر 28 ملین ڈالر تک جا پہنچی۔
Leave a Reply