جو تعاون آپ سے وزیر اعظم کر رہے ہیں ویسا ہی تعاون بلکہ اس سے بھی کچھ بڑھ کے‘ ہم آپ سے کریں گے، بس ایک بار نظر کرم کر دیں ۔۔۔۔۔حیران کن احوال بیان کردیا گیا

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار عمران یعقوب خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اب بات ہو جائے ان ہاؤس تبدیلی کی، ان ہاؤس تبدیلی کے حوالے سے جائزہ لیں تو اس کے لئے بھی بنیادی بطور پر تین وجوہات ہوتی ہیں۔ ان تین وجوہات میں سے ایک وجہ بھی دکھائی دے

تو ان ہاؤس تبدیلی کی صورت بن سکتی ہے۔ پہلے ہم باری باری ان تینوں وجوہات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔دنیا کے کسی بھی معاشرے یا ملک میں ان ہاؤس تبدیلی کی صورت اس وقت ہی کامیاب ہوتی ہے جب وہاں کے حکمران اتنے کمزور ہو جائیں اور عوام میں اتنے غیر مقبول ہو جائیں کہ ان کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی اپنی قیادت کے خلاف ہو جائیں اور اس سے جان چھڑوانا چاہیں۔ اس پس منظر میں اگر ہم وزیر اعظم عمران خان کی قیادت اور ان کی حکومت کا جائزہ لیں تو ابھی تک ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تحریک انصاف، پارٹی چیئرمین عمران خان کا ہی دوسرا نام ہے تو شاید غلط نہ ہو گا‘ عمران خان کو تحریک انصاف سے الگ کر لیں تو باقی کچھ نہیں بچتا۔تھرڈ ورلڈ کنٹریز یا ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں ان ہاؤس تبدیلی کی کامیابی یا نا کامی کا دار و مدار ”امپائر‘‘ کی مرضی پر بھی منحصر ہوتا ہے۔ امپائر اگر جانب دار ہو جائے تو ان ہاؤس تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے‘ مگر سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ہمارے ہاں امپائر جانب دار کیوں ہو گا؟ امپائر کو اس وقت جانب دار ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ ایسی صورت حال میں تیسرا اور ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ امپائر جانب دار نہ ہو مگر 100 فی صد غیر جانبدار ہو جائے یعنی اس کے لئے حکومت اور اپوزیشن دونوں برابر ہو جائیں اور وہ سب کو فری ہینڈ دے دے‘ لیکن یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کیا ان ہونی ہو گئی ہے کہ موجودہ حکومت‘ جس کو اپوزیشن امپائر کا اپنا ”بندوبست‘‘ قرار دے‘ اس کو گرانے کے لئے امپائر کیوں غیر جانب دار ہو گا؟ان حالات میں پھر صرف ایک ہی صورت بچتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری شاید انہی خطوط پر سوچ رہے ہیں۔ اس صورت حال میں اپوزیشن جماعتوں کو طاقت ور حلقوں کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ جو تعاون آپ سے وزیر اعظم کر رہے ہیں ویسا ہی تعاون بلکہ اس سے بھی کچھ بڑھ کے‘ ہم آپ سے کریں گے، اس یقین دہانی پر مکمل اعتماد ہو جانے کی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ملک میں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گڈ گورننس کے کھوکھلے نعروں کے باعث موجودہ حکومت کی کم ہوتی ہوئی مقبولیت اور قابو سے باہر نکلتے ہوئے معاشی حالات کے باعث طاقت ور حلقے کوئی نیا بندوبست کرنے کا سوچ لیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.