چاہنے والوں کے کام کی تحریر

لاہور (ویب ڈیسک) اسلام آباد جانے سے پہلے رات کو ان کو میں ملا تھا۔ میں نے پنجابی فلم ’’بے قابو‘‘ شروع کرنا تھی۔ جس میں راہی صاحب تھے۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ میں ایورنیو اسٹوڈیو سے اپنی گاڑی کی طرف جا رہا تھا۔ کمبل کی بکل مارے، راہی صاحب نے مجھے کندھا مارا۔

مجھے نہیں پتا تھا کہ کون ہے، کیونکہ اندھیرا تھا۔ میں نے دیکھا تو ہنس پڑے۔ میں نے کہا آغا جان رات کے اتنے پہر میں کہاں پھر رہے ہیں۔ یار میں تیرے یار کے پاس سے جوان ہو کر آیا ہوں۔ کلر لگوایا ہے، بال کٹوائے ہیں، صبح اسلام آباد جا رہا ہوں۔ آپ فلم ’’بے قابو‘‘ کا سیٹ لگوا لو۔ واپس آ کر تمہاری شوٹنگ کروں گا، میں نے کہاکہ ٹھیک ہے۔ یہ میری راہی صاحب سے آخری ملاقات تھی۔ وہ چلے گئے۔ میری یہ روٹین تھی میں اُس وقت اپنے گھر کے ٹیلی فون کا ریسیور اتار کر سوتا تھا۔ ٹیلی فون کچن میں ہوتا تھا۔ صبح چھ بجے کی بات ہے مجھے پیاس لگی، میں پانی پینے کے لئے کچن میں گیا ہوں اور پانی پیا۔ ٹیلی فون کا ریسیور اوپر رکھا ہے کہ بیل بجنے لگی۔ میں نے فون اٹھا لیا۔ راکسی سینما گوجرانوالہ سے ذوالفقار بابر کا فون تھا۔ اس نے میرا حال چال پوچھا اور کہا کہ بٹ صاحب کیا حال ہے کوئی نئی خبر ،کوئی نئی بات، میں نے کہا نہیں۔ کہنے لگا کہ میں آپ کو چار بجے سے فون کر رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ میں ابھی اٹھا ہوں، وہ مجھے کنفرم کر رہا تھا، وہ سول اسپتال گوجرانوالہ میں سلطان راہی کی میت کے پاس کھڑا تھا، کہنے لگا کہ آپ نے کوئی بات نہیں سنی۔ میں نے کہا نہیں۔ ذوالفقار بابر نے کہا کہ راہی صاحب سے متعلق کوئی خبر آپ کے پاس آئی ہے۔ میں نے کہا وہ اسلام آباد گئے ہوئے ہیں۔

انہوں نے آج کل ہی آنا ہے مجھے کہہ کر گئے تھے۔ کہنے لگا کہ یار وہ اس دنیا سے چلے گئے ہیں، میرے ہاتھ سے ریسیور گر گیا۔ ریسیور اٹھا کر کہا کہ کیا کہا… کہنے لگا کہ کسی نے انہیں مار دیا ہے۔ میں نے کہا کہ افواہ ہو گی، کہنے لگا کہ یار میں ان کی میت کے پاس کھڑا ہوں۔کیا ہوا، بتایا کہ گوجرانوالہ بائی پاس پر گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوا، ٹائر بدلتے ہوئے کچھ لوگ لوٹنے آئے اور انہوں نے مار دیا،۔ میں نے کہا کہ بابر صاحب آپ غور سے دیکھیں، راہی صاحب ہی ہیں نا… کہنے لگا کہ میں نے ان کے ساتھ دو تین فلمیں بنائی ہیں، وہی ہیں۔ بہرحال بڑی پریشانی ہوئی۔ فلم ’’سخی بادشاہ‘‘ کا کام رہتا تھا۔ مجھے پروڈیوسر حاجی محبوں کا فون آ گیا، انہوں نے راہی صاحب کی ناگہانی موت کا بتایا۔ ان کے والد چوہدری معراج دین نے فون پکڑ لیا۔ پوچھنے لگے کہ ہماری فلم کا کتنا کام ہے۔ میں نے کہا کہ جو پوچھے اس کو یہی بتائیں کہ ہماری فلم مکمل ہو گئی ہے۔ راہی صاحب کی شوٹنگ مکمل ہوگئی ہے۔ فلم ’’بے قابو‘‘ تو ابھی شروع ہونی تھی۔ ’’سخی بادشاہ‘‘ میں راہی صاحب کا 4 دن کا کام باقی تھا۔ راہی صاحب کا جنازہ ہوا۔ میں نے اپنے اسسٹنٹ بھٹی صاحب سے کہا کہ راہی صاحب کا جنازہ ایکسپوز کرو۔ ابھی ہماری فلم ’’سخی بادشاہ‘‘ لگی نہیں۔ ان کا جنازہ بس ایسے ہی ایکسپوز کر لیا، میرے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ اس کو فلم میں لگانا ہے۔ جنازے کے مناظر لے لئے، جب فلم میں ان کے جنازے کے سین کو ڈالا، اس میں کافی جھڑکیں آ رہی تھیں۔ فلم کا وائنڈ اپ گانا ’’کی دم دا بھروسہ‘‘ ہو چکا تھا۔ مسعود بٹ بتاتے ہیں کہ جب فلم ’’سخی بادشاہ‘‘ کا وائنڈ اَپ کر رہا تھا، ایک بات مجھے یاد ہے آغا طالش، صائمہ، اظہار قاضی، ریما تھے اس سین میں، راہی صاحب کی موت تھی۔ موت ہوتی ہے تو کہتے ہیں میری بات سنو۔ پنڈ آرائیاں میں ایک مزار تھا جہاں ہم شوٹنگ کر رہے تھے۔ کہتے تھے یار جب میں مروں تو کیمرے کا زوم مزار کے گنبد پر لے جانا۔ میں نے پوچھا کیوں اس کا کیا فائدہ ہے۔ ذاتی خواہش ہے کہ میں کسی مزار میں دفن ہوں۔ آغا طالش کہتے ہیں کہ یار وہ کہہ رہا ہے تو سین لے لو۔ میں اینڈ میں زوم مزار کے گنبد پر لے گیا۔ راہی صاحب ایک مزار کے احاطہ میں ہی دفن ہیں۔ فلم ’’سخی بادشاہ‘‘ لگی، فلم میں راہی صاحب کا جنازہ لگایا۔ فلم پہلے ایک ہفتے تو نہ چلی،اس کے بعد شبستان سینما میں ایک سال لگی رہی اورفلم کے پروڈیوسر کو فائدہ ہی فائدہ ہوا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.