پان کا پتہ بے شمار خوبیوں کا مالک ۔۔۔

خدا کی دی ہوئی یہ نعمت واقعی جادو کا پٹارا ہے۔ پان کا یہ سادہ سا پتہ خداداد خوبیوں کا مالک ہے۔ البیرونی اپنی کتاب ’کتاب الہند‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ہندوستانیوں کے دانت سرخ ہوتے ہیں۔‘ امیر خسرو نے کہا کہ پان منہ کو خوشبودار بناتا ہے۔ چینی سیاح آئی چنگ نے

پان کو ہاضم قرار دیا۔عبدالرزاق جو کالی کٹ کے بادشاہ زمورن کے دربار میں سمرقند سے سفیر بن کر آئے تھے، پان کی خوبیوں کو سراہتے دکھائی دیے۔ کہتے ہیں کہ ’پان کھانے سے چہرہ چمک اٹھتا ہے۔ دانت مضبوط اور سانس کی بدبو دور ہو جاتی ہے۔‘ اگر پان کے طبی فوائد پر نظر ڈالیں تو عقل دنگ رہ جائے گی۔ یہ نہ صرف ہاضم ہے بلکہ پیٹ کی بیماریوں کو رفع کرتا ہے اور بدن پر لگے زخموں کا مرہم بھی ہے۔مغلیہ سلطنت کا ہر بادشاہ پان کے لطف کا قائل تھا اور بادشاہ کے پان کا بیڑہ اٹھاتے ہی ہر ضیافت اپنے اختتام کو پہنچتی تھی۔ پان کے پتے کی خاطر بیان سے باہر ہے۔ ہر پتہ کیوڑے اور عرقِ گلاب سے ملا جاتا تھا۔ 11 پتوں کے پان کا ایک شاہی بیڑہ ہوتا تھا۔ چھالیہ صندل کے پانی میں ابالی جاتی تھی اور چونا زعفران کی خوشبو سے مہک اٹھتا تھا۔ پان کے پتے مختلف اقسام کے ہوتے ہیں جن میں بنگلا، بنارسی، مگھئی، دیسی، امباری اور کپوری کا استعمال عام ہے۔ اس کو اکیلا نہیں کھایا جاتا۔ اس کے اور بھی ساتھی ہیں جن کے بنا وہ ادھورا ہے جیسے چھالیہ، چونا، کتھا، الائچی، لونگ، زردہ، سونف اور گل قند۔ میٹھا پان میٹھا ہو تو گل قند اور سادہ ہو تو صرف الائچی کے دانے۔ غرض اس کے بنانے میں اور ان اجزا کو ملانے میں پان بنانے والے کا سلیقہ اور تجربہ شاملِ کار ہے۔ چونا زیادہ ہو تو زبان زخمی اور کتھا زیادہ ہو تو منہ کڑوا۔پان نے ایک بڑی صنعت کو مروج کیا ہے۔ مختلف مہنگی، سستی دھاتوں سے بنے پاندان، خاصدان، پیک دان، ان پر چڑھانے والے ریشمی غلاف، چونے اور کتھے کی خوبصورت چھوٹی چھوٹی ڈبیائیں اور چمچے، چھالیہ کترنے کے لیے مختلف شکل کے سروتے، پان کوٹنے کے لیے ہاون دستہ، پان رکھنے کے جیبی بٹوے، پان پیش کرنے کی خوبصورت طشتریاں غرض پان سے جڑی یہ صنائع بہت سے لوگوں کے لیے آمدنی کا ذریعہ بنے اور یہ صنعت آج بھی مروج ہے۔ پرانے وقتوں میں پان بنانے کا پیشہ تنبولن کرتی تھی پھر آہستہ آہستہ سڑکوں پر پان کی دکانیں کھلنے لگیں۔ لوگ تنبول کا لفظ ہی بھول گئے بس پان اور پان والا یاد رہ گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.