شریف خاندان نے دودھ کے کاروبار میں مشہور “ہلہ ” برانڈ کو کیسے چند ماہ میں ختم کروا دیا ؟ ہارون الرشید کے حیرت انگیز انکشافات

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔دل میں درد اور ذہن میں شعور کارفرما ہو، مشاورت اہلِ دانش سے ہو تو معجزے رونما ہوتے ہیں۔ باتوں سے نہیں، زندگی عزم و عمل کے ولولے سے تعمیر ہوتی ہے۔کپتان کو کوئی بتائے کہ خلقت پامال اور ملک کی

سب سے بڑی دولت برباد ہوئی جاتی ہے۔ پاکستانی زراعت پیہم زبوں حال کیوں ہے؟ گرتے گرتے کپاس کی پیداوار ایک کروڑ چالیس لاکھ سے پچپن لاکھ گانٹھ رہ گئی۔ کپاس کے پھول دیکھ کر دل دکھتا ہے۔گویا پولیو زدہ امعصوم بچّہ۔ حکومتیں بے نیاز رہیں، بالکل بے نیاز۔ شعیب بن عزیز کا شعر ہے کچھ اپنے دل کی خبر لے کہ اس خرابے میں پڑا ہوں میں بھی کسی گنجِ گمشدہ کی طرح اہلِ فکر و نظرکو کسان کی حالتِ زار پہ فریاد کرتے ہوئے ایک زمانہ بیت گیا۔ اقبالؔ نے کہا تھا: از جفائے دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب اور یہ کہا تھا دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ پوشیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے واحد زرعی انقلاب ایوب خاں کے عہد میں رونما ہوا۔ گندم کی پیداوار سات من فی ایکڑ تھی۔ امریکی زرعی ماہر، نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر برلاگ کا دریافت کردہ میکسی بیج پاکستان لایا گیا۔ چالیس من فی ایکڑ تک پیداوار پہنچی۔ بھٹو، ضیاء الحق، بے نظیر، نواز شریف، زرداری یا کپتان، تمام تر توانائی باہمی کشمکش کی نذر ہوتی رہی۔ بس ایک برس بے نظیر نے ڈاکٹر ظفر الطاف کو ذمہ داری سونپی۔ پرعزم اورباوفا آدمی کی ریاضت سے سات فیصد فروغ ہوا۔پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ 78سالہ آدمی کو شریف خاندان نے عدالتوں میں گھسیٹ کے انجام کو پہنچا ڈالا۔ دودھ کی پیداوار کے شعبے میں جس نے کرشمہ کر دکھایا تھا۔ چالیس پچاس ہزار خاندانوں کو حیاتِ نو بخشی۔ ان کے بچّے آسودہ ہوئے اور بہتر اداروں میں تعلیم پانے لگے۔

پچپن روپے فی کلو کے حساب سے بیکریوں، ہوٹلوں اور عام لوگوں کو دودھ فراہم کیا جاتا۔ پھر شریف خاندان کو اپنا کارخانہ لگانے کی سوجھی اور طے یہ پایا کہ اس مشہور برانڈ ’’ہلہ‘‘ کو دفن کر دیا جائے تاکہ حمزہ شہباز کا کاروبار چمک سکے۔ چوبیس پچیس فیصد سے گھٹتے گھٹتے قومی آمدن میں زراعت کا حصہ اٹھارہ فیصد رہ گیا۔ نتیجہ یہ کہ حکومت کی توجہ اور بھی کم ہو گئی۔نگاہ اس کی زیادہ آمدن والے شعبوں پہ رہتی ہے۔ پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کا حال پتلا ہے۔ زرعی یونیورسٹیوں کا خراب تر۔ زرخیز دماغوں سے مشورہ نہیں کیا جا تا۔ کسان کا درد محسوس کرنے والا کوئی نہیں۔دہقان حالات کے رحم و کرم پر۔ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے بنیادی تضاد یہ ہے کہ زراعت کو صنعت کا درجہ حاصل نہیں۔ دنیا بدل چکی اور کاشت کاری کے تقاضے بھی۔ بیج کی دنیا میں انقلاب برپا ہے۔چین میں ایک ایکڑ سے دوسو من چاول اگانے کا تجربہ کامیاب رہا۔ دنیا میں گندم کی اوسط پیداوار اسی من سے اوپر ہے۔ ہمارے ہاں لگ بھگ بیس من فی ایکڑ۔کسی کو پرواہ ہی نہیں۔ کوئی دیرپا منصوبہ نہیں کہ افتادگانِ خاک کی خبر لے۔ہنگامہ برپا ہو۔امڈ کر کسان شہروں کا گھیراؤ کر لیں تو حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولتے ہیں۔ بات ہوتی اور وعدے کر لیے جاتے ہیں۔ کبھی نہ پورے ہونے والے وعدے۔وسطی ایشیا کی ضرب المثل یہ ہے: برف پہ تم پیمان لکھتے ہو اور دھوپ میں رکھ دیتے ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.