اعتماد کا ووٹ حاصل کر لینے سے کچھ نہیں ہو گا ، اگر خان صاحب نے ایک کام نہ کیا تو انہیں بھریا میلہ چھوڑا پڑے گا ۔۔۔۔ سینئر کالم نگار نے دعویٰ کردیا

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اس بار یہ بھی لگتا ہے کہ حکومت کی انٹیلی جنس بہت کمزور تھی یا پھر ارکانِ اسمبلی نے انتہائی مہارت اور رازداری سے اپنی ”بغاوت“ کو چھپائے رکھا۔ حکومت کو اتنا تو پتہ تھا کہ کوئی گڑبڑ ہو سکتی ہے،

اسی لئے پے در پے ایسے اقدامات اٹھائے گئے جو حکومت کی اضطراری حالت کو ظاہر کرتے تھے۔ مثلاً سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس،اسمبلی میں اوپن بیلٹ کا ترمیمی بل اور پھر صدارتی آرڈیننس۔ بجائے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کے تمام وزراء اس بات میں جت گئے کہ خرید و فروخت کا بازار گرم ہونے والا ہے اس لئے اسے روکنا ہے اب ظاہر ہو گیا ہے کہ بے وفائی کرنے والے تمام ارکانِ اسمبلی کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے جتنی کوششیں اور زور سپریم کورٹ سے ترمیم کرانے پر صرف کیا گیا، اس سے کہیں کم توجہ اپنے ارکانِ اسمبلی کی شکایات اور ناراضی کے ازالے پر صرف کی جاتی تو شاید تحریک انصاف کو سینٹ کی یہ عبرت ناک شکست نہ ہوتی۔سوال تو یہ بھی ہے کہ عبدالحفیظ شیخ کو اسلام آباد کی نشست پر سید یوسف رضا گیلانی کے مقابل اتارا ہی کیوں گیا؟ جب یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ سید یوسف رضا گیلانی نے اپنا ووٹ اسلام آباد منتقل کرا لیا ہے اور وہ اسلام آباد کی نشست پر انتخاب لڑیں گے تو تحریک انصاف کو اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنی چاہئے تھی۔ عبدالحفیظ شیخ کو پنجاب یا خیبر پختونخوا کی نشست سے انتخاب لڑانا چاہئے تھا اگر سید یوسف رضا گیلانی کا ووٹ اسلام آباد منتقل ہو سکتا ہے تو عبدالحفیظ شیخ کا بھی لاہور یا پشاور منتقل ہو سکتا تھا سید یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں کسی سیاستدان کو میدان میں لایا جاتا تو شاید پی ٹی آئی کے ارکانِ اسمبلی اس طرح ”بغاوت“ نہ کرتے جس طرح انہوں نے کی،

عبدالحفیظ شیخ ایک غیر سیاسی آدمی ہیں جو ارکانِ اسمبلی سے کبھی ملتے ہیں نہ راہ و رسم رکھتے ہیں ان کی وفاداری اقتدار کے ساتھ ہے، وہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) حتیٰ کہ آمرانہ دور میں بھی وزیر خزانہ کے طور پر ایڈجسٹ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے حالات میں اس بات کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا کہ اسلام آباد کی ایک جنرل نشست پر انہیں الیکشن لڑانے کا رسک لینے کی بجائے کسی اور جگہ سے لڑایا جائے تاکہ متناسب نمائندگی کے تحت ان کی جیت کو یقینی بنایا جا سکے۔خیر اب تو جو ہونا تھا ہو گیا۔ حکومت کے خلاف نئے محاذ کھل گئے ہیں پی ڈی ایم نے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے، جبکہ شکست کے فوراً بعد پریس کانفرس کرتے ہوئے وفاقی وزراء نے اعلان کیا ہے کہ وزیر اعظم ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔ کیا اعتماد کا ووٹ لینے سے جو عموماً شو آف ہینڈ یا لابیوں میں تقسیم کے ذریعے ہوتا ہے، حکومت پر دباؤ کم ہو جائے گا؟ کیا اپوزیشن جو پہلے ہی حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے لنگوٹ کس کر بیٹھی ہے اس اقدام سے خاموش ہو جائے گی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کیا کپتان اپنی اسی معاشی ٹیم کے ساتھ قوم کو مطمئن کر سکیں گے۔ آخر ان کے خلاف سترہ ارکان اسمبلی نے بغاوت کیوں کی ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ارکانِ اسمبلی اب مہنگائی اور برے معاشی حالات کی وجہ سے اپنے ووٹروں کا سامنا نہیں کر پاتے جس کا اظہار انہوں نے سینٹ انتخابات میں کیا، حقیقت یہ ہے کہ کپتان کو اب ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوگا۔ صرف اپوزیشن کو چور لٹیرے کہنے سے بات نہیں بنے گی عوام کے لئے عملی اقدامات سے حالات سازگار نہ بنائے گئے تو بھریا میلہ چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.