
اچھا تو یہ بات تھی : آصف زرداری استعفے دینے سے کیوں انکاری ہیں ؟ اگر ساری اپوزیشن مل کر استعفے دے بھی دےتو عمران حکومت کو کوئی فرق کیوں نہیں پڑے گا ؟ نمبر گیم اور آئینی نکات سامنے رکھ دیے گئے
لاہور (ویب ڈیسک) نامور صحافی سعید چوہدری اپنے ایک تبصرے میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانے کے لئے پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کی اکثریت استعفوں پر زور دے رہی ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے اس کے برعکس موقف اختیارکررکھاہے،
کیا قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے ارکان کے استعفوں کے بعد آئینی طور پر عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہوگا؟ اور دوسرا یہ کہ کیا کسی صوبائی اسمبلی کی تحلیل سینیٹ کے آئندہ انتخابات کو متاثر کرسکتی ہے؟ آئین کے آرٹیکل 52کے تحت قومی اسمبلی کی معیاد 5سال مقرر ہے تاوقتیکہ اسے قبل ازوقت تحلیل نہ کردیا جائے۔آئین کے آرٹیکل 58(1)کے تحت اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہے۔آئین کے آرٹیکل 224(1)کے مطابق اسمبلی کی معیاد ختم ہونے کے بعد60روز کے اندر عام انتخابات کروائے جاتے ہیں تاہم آرٹیکل224(2)میں کہا گیا ہے کہ اگر اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کردیا جائے تو تحلیل کئے جانے کے بعد 90دنوں کے اندر عام انتخابات ہوں گے۔آئین کے آرٹیکل 224کے ضمنی آرٹیکل 4کے مطابق اگر اسمبلی کی کوئی نشست کسی وجہ سے خالی ہوجائے تو 60روز کے اندر اس پر ضمنی الیکشن ہوگا تاہم اگر قومی اسمبلی کی کوئی نشست اس وقت خالی ہوتی ہے جب اسمبلی کی معیاد ختم ہونے میں 120روز باقی ہوں تو پھر اس پر ضمنی الیکشن نہیں ہوگا بلکہ وہ سیٹ عام انتخابات تک خالی رکھی جائے گی۔حزب اختلاف کے ارکان اسمبلی کی طرف سے استعفے دئیے جانے کے بعد آئینی طور پر عام انتخابات نہیں کروائے جاسکتے بلکہ ان کی استعفوں سے خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے۔آئین کے تحت ضمنی انتخاب میں کامیاب ہونے والے ارکان اسمبلی 5سال کے نہیں بلکہ موجودہ اسمبلی کی مدت کے خاتمہ تک کے لئے منتخب ہوتے ہیں۔جو جماعتیں قومی اسمبلی سے استعفے دیں گی ان سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ ضمنی الیکشن میں حصہ لیں گی ایسی صورت میں ان ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کوفائدہ ہوگا
تاہم اگر وہ سیاسی جماعتیں ضمنی انتخابات کے میدان میں اترتی ہیں تو پھر اس بابت کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا،اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حزب اختلاف کے استعفوں سے اسمبلی کی کارروائی یا حکومت کا کاروبار رک جائے گا؟ آئین کے آرٹیکل 55کے تحت قومی اسمبلی کے ارکان کی مجموعی تعداد کا ایک چوتھائی اجلاس میں موجود ہونا ضروری ہے۔اس وقت قومی اسمبلی کے ارکان کی مجموعی تعداد 342ہے،دوسرے لفظوں میں اسمبلی اجلاس کا کورم پورا کرنے کے لئے 86ارکان کی موجودگی ضروری ہے جبکہ پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کے پاس کم و بیش178نشستیں ہیں،اگر پی ٹی آئی کے 86کے سوا دیگر تمام ارکان بھی مستعفی ہوجاتے ہیں تو آئینی طور پر نہ صرف قومی اسمبلی کے اجلاس ہوسکتے ہیں بلکہ حاضر ارکان سادہ اکثریت سے قانون سازی بھی کرسکتے ہیں،بہت بڑی تعداد میں ارکان اسمبلی کے استعفوں کی صورت میں حکومت پر قبل از وقت عام انتخابات کروانے کے لئے شدید دباؤ ہوگا جبکہ وزیراعظم کو اسمبلی تحلیل کرنے پر مجبور کرنے کے لئے مختلف سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں متحرک ہوسکتی ہیں تاہم ان استعفوں کے باوجود عام انتخابات کروانا آئینی تقاضا نہیں ہوگا۔یہ حکومت پر ہوگا کہ وہ دباؤ برداشت کرتی ہے یا پھر اس کے وزیراعظم اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس دیتے ہیں۔جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے کہ ان استعفوں کی بنیاد پر عام انتخابات نہیں کروائے جاسکتے تاوقتیکہ وزیراعظم خود اسمبلی تحلیل نہ کردیں۔86ارکان کے سوا پوری اسمبلی بھی مستعفی ہوجائے تو آئینی طور پر کاروبار سلطنت اور اسمبلی کی کارروائی بشمول قانون سازی جاری رکھی جاسکتی ہے،آئینی صورتحال جو بھی ہو ارکان اسمبلی کے استعفوں سے حکومت پر قبل از وقت عام انتخابات کروانے کے لئے دباؤ اتنا شدید ہوگا کہ اس سے نبردآزما ہونے کے لئے چیتے کا جگر چاہیے،اتنے بڑے پیمانے پر مقررہ مدت کے اندر ضمنی انتخابات کروانا الیکشن کمشن کے لئے بھی ایک امتحان ہوگا،الیکشن کمشن اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل254سے بھی استفادہ کرسکتاہے جس کے تحت اگر کوئی کام مقررہ آئینی مدت کے اندر پورا نہ ہوسکے تو پھر بھی اسے غیر آئینی نہیں کہا جاسکتا۔
Leave a Reply