
پاکستان میں الیکٹرانک و سوشل میڈیا کو بلڈوز کرنے کے لیے حکومت جلد کیا سرپرائز دینے والی ہے؟ سلیم صافی نے پکی خبر بریک کردی
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار سلیم صافی اپنے تازہ ترین کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آرڈیننس کا نام پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 ہے جس کی رو سے پیمرا وغیرہ کو ختم کرکے تمام ادارے ایک نئی اتھارٹی میں ضم کردئیے جائیں گے ۔ سابقہ ایکٹس اور قوانین ختم ہوں گے یاان میں ترمیم ہوگی
اورمیڈیا یا سوشل میڈیا سے متعلق تمام معاملات بھی اس اتھارٹی کے تحت آجائیں گے۔یہ اتھارٹی فلم، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا یعنی ویب ٹی وی، آن لائن نیوز پلیٹ فارم وغیرہ کو بھی ریگولیٹ کرے گی۔نئے قانون کے تحت یوٹیوب چینل، ایمازون پرائم، نیٹ فلیکس اور ویب ٹی وی وغیرہ کے لئے بھی حکومت سے لائسنس درکار ہوگا ۔ڈیجیٹل میڈیا کے لئے بھی اخبار کی طرح اجازت لینا ضروری ہوگا۔اس اتھارٹی سے این او سی حاصل کئے بغیر ٹی وی اور اخبار کی طرح کوئی ڈیجیٹل چینل بھی نہیں چلاسکے گا۔یہ اتھارٹی الیکٹرانک چینلز اور اخبارات کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا چلانے والوں کے خلاف بھی اسی طرح کارروائی کرسکے گی جس طرح پیمرا الیکٹرانک چینلز کے خلاف کرتا ہے ۔نئے قانون کے تحت یہ اتھارٹی خودمختار نہیں ہوگی بلکہ وفاقی حکومت اس کو پالیسی ایشوز پر ہدایات جاری کرے گی اور وفاقی حکومت کا فیصلہ ہی حتمی ہوگا۔اتھارٹی کا چیئرمین گریڈ 21 یا 22 کا سرکاری افسر ہوگا ۔ اس کے 24 ممبر ہوں گے جن میں گیارہ کی نامزدگی صدرمملکت وفاقی حکومت کے مشورے پر کریںگے۔اس اتھارٹی کے تحت الیکٹرانک میڈیا ڈائریکٹوریٹ، پرنٹ میڈیا ڈائریکٹوریٹ اور ڈیجیٹل میڈیا اینڈ فلم ڈائریکٹوریٹ کام کریں گے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا کے لئے بھی صوبائی، قومی اور عالمی سطح پرالگ الگ لائسنس لینے ہوں گے۔ڈیجیٹل میڈیا کو بھی انٹرٹینمنٹ، کڈز، اسپورٹس، نیوز ، ٹورازم اور اسی طرح کی کیٹگریز میں تقسیم کیا جائے گا اور کوئی فردصرف ایک شعبے کے لئے یوٹیوب چینل کا لائسنس حاصل کرسکے گا۔
ڈیجیٹل میڈیا کی بھی لائسنس فیس ہوگی۔نئے قانون کے تحت الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پابند ہوگا کہ وہ روزانہ پانچ فی صد حکومت کی طرف سے پبلک انٹرسٹ میں فراہم کردہ مواد کو چلائے گا۔کسی کو ایسا مواد چلانے یا آن لائن کرنے کی اجازت نہیں ہوگی جس میں ہیڈ آف اسٹیٹ (صدر) ، فورسز یا عدلیہ کی بدنامی ہورہی ہو۔اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں کے علاوہ کئی دیگر بڑے شہروں میں بھی میڈیا شکایات کونسلز قائم کی جائیں گی جوپرنٹ،الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے خلاف شکایات سنیں گی۔شکایات کونسل کے ساتھ ایک ایڈوائزری کونسل ہوگی جس کے آٹھ میں سے چار ممبر حکومت کے ہوں گے ۔اس کونسل کے پاس سول کورٹ کے اختیارات ہوں گے ۔اسی طرح یہ اتھارٹی شوکاز نوٹس دیے بغیر اس اخبار ، ٹی وی چینل یا ڈیجیٹل چینل کے خلاف کارروائی کرسکے گی جس نے ایسا مواد نشر کیا ہو کہ جو نظریہ پاکستان کے خلاف ہو، جس سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچے یا جو گند پھیلانے کا موجب بنے یا جو مروجہ معاشرتی اقدارکے منافی ہو(نوٹ: نظریہ پاکستان اور قومی سلامتی تو ایک طرف لیکن کونسی چیز گند ہے اور کونسی نہیں یا پھر کونسا کام ”مروجہ معاشرتی اقدار“ سے موافق ہے یا نہیں، یہ فیصلہ کون کرے گا؟اپیلٹ کورٹ کے طور پر صدر میڈیا ٹریبونل بنائے گا، جس کا چیئرمین ایسا شخص ہوگا جو ہائی کورٹ کا جج بننے کا اہل ہو۔ باقی ممبران متعلقہ حلقوں سے مقرر کرے گا ۔ یہ ٹریبونل میڈیا کمپلینٹ کونسل یا اتھارٹی کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرے گا۔یہ ٹریبونل ویج بورڈ پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائے گا۔آرڈیننس کی رو سے میڈیا اور سوشل میڈیا سے ایک اپیل یعنی ہائی کورٹ میں اپیل کا حق چھین لیا گیا ہے اور اتھارٹی یا ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف صرف سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکے گی ، اس آرڈیننس کے تحت خلاف ورزی کرنے والے میڈیا پرسنز کو تین سے پانچ سال قید تک کی سزا سنائی جاسکے گی۔یہ اتھارٹی متعلقہ ڈویژن کی منظوری سے اپنے لئے رولز بھی بنااور تبدیل کرسکے گی گویا اس معاملے میں یہ اتھارٹی نیب سے بھی زیادہ بااختیار ہوگی۔اب آپ ہی بتائیے کہ اگر خدانخواستہ حکومت اس آرڈیننس کو اس شکل میں نافذکرتی ہے تو پاکستان میں کہاں کی آزادی اظہار رہ جائے گا اور پھر کیا اس کے بعد یہ ملک آزادی اظہار کے لحاظ سے شمالی کوریا کا منظر پیش نہیں کررہا ہوگا؟
Leave a Reply