پرویز مشرف کی ایک گیم کا تذکرہ آپ کو حیران کردے گا

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار ایاز امیر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔جنرل مشرف جب فوج کے سربراہ تھے انہوں نے کارگل معرکہ کے بارے میں اپنے تمام کور کمانڈروں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔ بس دو تین اعلیٰ عہدوں پہ فائز شخصیات تھیں جو اس راز میں شامل تھیں۔

افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ تب کے وزیراعظم نوازشریف‘ اُن کو بھی حالات کی سنگینی کا بروقت احساس نہ ہوا۔ پہلی بریفنگ جب اُنہیں دی گئی تو اُنہیں یہ پوچھنا چاہئے تھا کہ تمہیں فوجی پیش قدمی کی اجازت کس نے دی ہے۔ جنرل مشرف کو فارغ کرنا تھا تو تب کرتے۔اُس وقت ایسا کرنے پہ ردعمل بھی نہ ہوتا کیونکہ ادارے میں خود حیرانی تھی کہ یہ معرکہ کن وجوہات کی بنا پہ شروع کیا گیا ہے۔ لیکن بجائے صحیح سوال کرنے کے نوازشریف نے یہ پوچھا کہ ہم سرینگر پہ قبضہ کرلیں گے؟ اس احمقانہ سوال کا جواب کسی بڑھک کی صورت میں ہی دیا جا سکتا تھااور واقفانِ حال کہتے ہیں کہ اُس بریفنگ میں زیادہ تر بڑھکیں ہی لگائی گئیں۔ یہ اور بات ہے کہ جب میدان لڑائی کے حالات خراب ہوئے تو پاکستان کو مجبوراً صدر کلنٹن کی منت کرنی پڑی کہ بیچ میں آئیں اورلڑائی ختم کرائیں۔ کلنٹن کا جواب تھا کہ واشنگٹن آنا ہے تو ضرور آؤ لیکن اس ضمانت کے ساتھ کہ پیش قدمی ختم کی جائے گی۔ ہماری یقین دہانی کے بعدہی نوازشریف کو اجازت ملی کہ وہ واشنگٹن آئیں۔لہٰذا قوم کو یہ تو بتایا جائے کہ قومی مفاد نامی چیز کا ٹھیکہ کس کے ذمے ہونا چاہئے۔ نائن الیون کے بعد امریکیوں نے جنرل مشرف سے کچھ مطالبات کئے۔تب کے امریکی وزیرخارجہ کولن پاول نے ایک فون کال کی۔ امریکی بھی حیران رہ گئے جب کسی چون و چرا کے بغیر ہم نے سب مطالبات مان لئے۔ تب یہی قومی مفاد ٹھہرا تھااور قوم کو باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان کے سامنے اور کوئی راستہ نہ تھا۔ آج جس لہجے میں ہم امریکہ کے بارے میں بات کررہے ہیں وہ بہت اچھا ہے لیکن کاش ایسا لہجہ ہم کچھ پہلے اپنا لیتے۔ عراق وار کے حوالے سے امریکہ نے ترکی سے بھی کچھ مطالبات کئے تھے لیکن ترکی کا مؤقف تھا کہ ہمیں اپنی پارلیمنٹ سے رجوع کرنا پڑے گا۔ پارلیمانی بحث کے بعد ترکی نے یہ مطالبہ کیا کہ اگر امریکیوں کو زمینی راستہ چاہئے تو اس کے عوض پچیس بلین ڈالر ترکی کو دیے جائیں۔ امریکی چپ ہو گئے اور بات وہیں ختم ہو گئی۔کچھ تو ٹھہراؤ ہم اپنے میں پیدا کرلیں۔ تنگ دل ہوں تو اتنے تنگ دل نہ ہوں‘ دل پھینک ہوں تو سب کچھ کھول کے نہ رکھ دیں۔قومی مفاد کے ایک اور کارنامے کو بھی یاد رکھنا چاہئے۔ 1970ء کے انتخاب میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کو سویپ کیا‘ لیکن قومی مفاد یہ ٹھہرا کہ قومی اسمبلی اجلاس نہ بلا یا جائے۔ جنرل یحییٰ خان اور اُن کے ساتھیوں کا یہ فیصلہ تھا اور اُن کے ہمنوا ذوالفقار علی بھٹوتھے۔سکاٹ لینڈ کہہ رہا ہے کہ اُسے برطانیہ سے علیحدگی چاہئے بہرحال وہاں یہ کوئی آواز نہیں اُٹھ رہی کہ سکاٹ لینڈ میں فوج بھیجی جائے۔ البتہ 1971ء میں ہمارا قومی مفاد یہ ٹھہرا کہ ڈھاکہ میں فوجی ایکشن شروع کیا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.