1400 سال قبل حضرت محمدؐ کے اس فرمان میں چین ہی کا ذکر کیوں کیا گیا ؟

لاہور (ویب ڈیسک) نوجوان صحافی و کالم نگار نواز عاربی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔چین کی ترقی کا بنیادی سبب سڑکیں،پُلیں اور عمارتیں نہیں، بلکہ اپنی عوام کے اندر قوم و ملک کی بقا کے لئے محنت کی لگن کا پیدا کرنا ہے۔اولاً،آج ہر چینی باشندہ ہاتھ سے کام کرنے پر یقین رکھتا ہے،

جو ہمارے ہاں عموماً ”گناہ“ سمجھا جاتا ہے۔دوسرا یہ کہ اسراف اور نمودونمائش سے ہر چینی احتراز کرتا ہے،تبھی بڑی بڑی توندوں والے چینی باشندے نظر نہیں آتے،چونکہ سرکاری اداروں یا کارخانوں کے علاوہ چین کے ہر گھر سے بالعموم کچھ نہ کچھ تیار ہوکرباہر نکل رہاہے۔لہٰذا اسے تجارتی منڈی تک پہنچانا لازم ہے۔اگریہ سب تجارتی منڈی تک نہ پہنچ سکے تو اس کے دو بڑے نقصانات سامنے آتے ہیں۔پڑی ہوئی اشیاء کی موجودگی میں اور اشیاء بنانا یا پیدا کرنا بے معنی سا لگتا ہے۔دوسرا یہ کہ کام ختم ہونے کے باعث لوگوں کے سُست اور کاہل ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ چین نے اپنے ملک میں مختلف سرکاری اور نجی سطحوں پر پیدا ہونے والی اشیاء کی درجہ بندی کر دی ہے اور اس درجہ بندی کے پیش ِ نظر دنیا کے مختلف ممالک اور اُن کے اندر مختلف علاقوں میں آبادیوں کی قوتِ خرید کو دیکھتے ہوئے نقشہ کشی کر رکھی ہے۔ اس نقشہ کشی کے مطابق وہ مخصوص معیار کی اشیاء کو مخصوص جگہوں پر برائے فروخت بھیجتا ہے۔اس کی مثال یوں لیجئے۔انار کلی میں بکنے والی اشیاء کا معیار بحریہ ٹاؤن اور ڈیفنس کی مارکیٹوں میں بکنے والی اشیاء سے بالکل مختلف ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ اشیاء کی پیداوار بھی بڑھ رہی ہے۔جسے فروخت کرنے کے لئے مزید منڈیاں درکار ہیں۔ اسی لئے وہ مختلف ممالک کے ساتھ مل کر سڑکوں کے منصوبے قائم کر رہا ہے۔ان منصوبوں میں اس کا اندازِ شراکت یورپی ممالک کی نسبت دوستانہ اور مُخیّرانہ ہے۔سی پیک اسی سلسلے کی

ایک کڑی ہے۔ نبی رحمتؐ نے مسلمانوں پرحصولِ تعلیم کے کئے ہمیشہ زور دیا۔کیونکہ سب سے پہلاحُکمِ رَبّی بھی حصولِ تعلیم سے متعلق تھا،جو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی نافع ِ تعلیم کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ اسی لیے نبی ئ رحمتؐ نے خود بھی دُعا فرمائی اور اپنی اُمت کو بھی یہ دُعا سکھائی ”اے میرے رب، میرے علم میں اضافہ فرما“۔معرکہ ِ بدر میں ہر کافر قیدی پررہائی کے لئے شرط رکھی کہ وہ دس مسلمانوں کو تعلیم دے گا۔دراصل یہ تعلیم مسلمانوں کی معاشی حالت سنوارنے کی غرض سے تھی۔ مسلمانوں کوحصولِ تعلیم کی طرف راغب کرنے کی ایک کڑی آپؐ کا وہ فرمان ہے (جس پر کچھ عُلماء کرام میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے)کہ”علم حاصل کرو،خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے“ گویا آج سے پندرہ سو سال قبل،آپؐ نے چین کومستقبل کا علمی اور تکنیکی مرکز قرار دے دیا۔آپؐ کی پیشین گوئی ایک عام مسلمان کا یقین پختہ کرتی ہے کہ مستقبل چین کا ہے اور ہمیں نبی ئ رحمتؐ کے حکم کی بجا آوری اور اس سے استفادہ کے لئے چین سے ناطہ جوڑے رکھنا چاہئے، کیونکہ وقت بتا رہا ہے، بغیر لڑائی کیے آج چین جس معاشی مقام پر کھڑا ہے،تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔جہاں ہمیں چین سے اپنے تعلقات کو بہتر رکھنا ہے۔ وہاں اس بات کا خیال بھی رکھنا ہے کہ ہم کہیں دوست کے مرتبے سے گِر کر محتاج اور فقیر کا ”رُتبہ“ نہ حاصل کر لیں۔جیسے ہم نے امریکہ کے ساتھ تعلقات قائم کر کے حاصل کیا۔

One response to “1400 سال قبل حضرت محمدؐ کے اس فرمان میں چین ہی کا ذکر کیوں کیا گیا ؟”

Leave a Reply

Your email address will not be published.