اگر شاہد آفریدی سیاست میں آیا تو وہ عمران خان کی طرح کامیاب ہو گا یا نہیں ؟

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار محمد عامر خاکوانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔عمران خان نے 92ء میں ورلڈ کپ جیتا۔ چار سال بعد تحریک انصاف بنائی، اگلے سال الیکشن لڑا اور بدترین شکست سے دوچار ہوئے۔ ایک بھی نشست نہیں مل سکی۔ملک کا مقبول ترین کرکٹر جس نے صرف پانچ سال پہلے

ورلڈ کپ جیتا، شوکت خانم ہسپتال بنا یا ، وہ اس وقت پچاس سال سے کم عمر کا تھا، ظاہر ہے آج کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ جوان، زیادہ خوش شکل۔ اس کے باوجود لاہور جیسے شہر سے چند ہزار ووٹ مل پائے۔ پانچ سال بعد 2002ء میں الیکشن ہوئے، عمران خان پھر الیکشن لڑا، شکست ہوئی،بمشکل میانوالی سے ایک نشست جیت پایا۔ اس لئے یہ مِتھ تو ختم ہوئی کہ ورلڈ کپ جیتنا یا مقبول کھلاڑی ہونا سیاست میں کامیابی دلواتا ہے۔اگر شاہد آفریدی سیاست میں آیا تو کم وبیش یہی نتیجہ نکلے گا۔ ٹکٹ اچھا مل گیا تو شائد ایک آدھ نشست جیت جائے ، بس۔ عمران خان کی کامیابی میں تین چار عوامل فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ سب سے اہم عمران خان کی استقامت اور کریڈیبلٹی ہے۔ سیاست کے جوہڑ میں رہ کر بھی وہ نیک نام اور صاف رہا۔ جنرل مشرف کا ساتھ دیا، مگراس بات پر الگ ہوا کہ چودھریوں کو کیوں ملایا جا رہا ہے۔ یہ سیاسی حماقت ہوگی، مگر بہرحال یہ عمران خان کے حق میں گئی۔ اس نے اقتدار یا وزارت کی خاطر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔عمران خان کو ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ دیگر سیاستدانوں کے برعکس اس پر کوئی بیگج یا بوجھ نہیں ۔ وہ کسی خاص برادری، لسانی کمیونٹی ، کسی معاشی گروپ کا نمائندہ نہیں ہے۔ اس کا نقصان بھی ہوتا ہے، مگر فائدہ یہ کہ دیگر گروپوں کی عصبیت اور مخالفت بھی آڑے نہیں آتی۔عمران خان کی فیملی کا تعلق میانوالی کے نیازیوں سے ہے، مگر اس کی کابینہ ، جماعت میں نیازی ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ والد سرائیکی بولتے تھے، مگر وہ عملی طور پر سرائیکی نہیں۔وہ لاہور میں پلا بڑھا، اس لحاظ سے پنجابی ہے،مگر پنجابی عصبیت سے عاری ، پنجاب کی تقسیم اس کا ایشو نہیں۔اس کی فیملی فوجی نہیں، مگر فوج مخالف بھی نہیں رہی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.