
حامد میر کی خصوصی تحریر
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار حامد میر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔پنجاب اسمبلی نے 9جون کو پروفیسر وارث میر کے حق میں ایک قرارداد منظور کی تو مجھے اُن کی وصیت یاد آ گئی۔ اس وصیت کا ذکر میں نے اُن کی زبان سے بھی سنا تھا لیکن یہ وصیت 1983میں اُنہوں نے اپنے
کالم میں بھی شائع لکھی جس کا عنوان تھا ’’ایک خواب جو حقیقت بن گیا‘‘۔ یہ کالم عامر میر کی مرتب کردہ کتاب ’’وارث میر کہانی‘‘ میں بھی شامل ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے 1977میں مارشل لاء لگایا اور صحافت پر پابندیاں لگ گئیں تو پروفیسر وارث میر اعلیٰ تعلیم کے لئے برطانیہ چلے گئے۔ وہ سٹی یونیورسٹی لندن میں دورانِ تعلیم بیمار پڑ گئے۔ ایک اسپتال میں ہرنیا کا آپریشن ہوا جو بگڑ گیا اور حالت بہت خراب ہو گئی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اپنی وصیت لکھ دیں۔ پروفیسر وارث میر نے ایک مختصر وصیت تحریر کی جو کچھ یوں تھی ’’میں اپنی تمام منقولہ اور غیرمنقولہ جائیداد اپنی اہلیہ کے نام منتقل کرتا ہوں اور اپنے بچوں کو تاکید کرتا ہوں وہ اسلام اور پاکستان کی جنگ جاری رکھیں‘‘۔ یہ وصیت 1978میں لکھی گئی اور اُس وقت مجھ سمیت اُن کے تمام بچے اسکول میں پڑھتے تھے لیکن وہ اپنے بچوں سے اسلام اور پاکستان کی جنگ جاری رکھنے کی توقع رکھتے تھے۔ اس وصیت کا اسپتال کے ڈاکٹروں، نرسوں اور مریضوں نے بڑا مذاق اڑایا اور پروفیسر وارث میر کو ’’مسٹر میر! سولجر آف اسلام، اللہ اکبر‘‘ کہا جاتا۔ مذاق کے اس ماحول میں اُنہوں نے خواب میں خانہ کعبہ کی زیارت کی اور کچھ دنوں بعد پروفیسر وارث میر لندن کے اسپتال میں اپنا مضحکہ اڑواتے ہوئے مکہ جا پہنچے اور خانہ کعبہ کی زیارت کر رہے تھے۔ اسی پروفیسر وارث میر کے بارے میں پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض چوہان نے 23؍مئی کو ایک وڈیو بیان جاری کیا اور اُنہیں غدارِ وطن قرار دیا۔
Leave a Reply