یہ زبردست سیاسی تبصرہ پڑھ کر اپنی رائے ضرور دیجیے

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار محمد عامر خاکوانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔عمران خان کے مخالف سیاستدانوں کی کمی نہیں۔ ان کے حامی بڑے کاروباری اور تاجر گروپ بھی خان کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔یہ سب باتیں اپنی جگہ ، مگر ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو طاقت کے مراکز سے زیادہ

قوت رکھتا ہو یا انہیں آئوٹ کلاس کر سکے ۔ بڑے کاروباری بھی اپنے مفادات کے تحت ہی سابق حکمرانوں کے قریب رہے۔ان کے آکسیجن پائپ پر کسی زیادہ طاقتور کا پائوں آئے تو وہ مزاحمت کر سکتے ہیں ؟ نہیں، بالکل نہیں۔ خامی پھر کہیں اور ہے۔امریکی صحافی نے درست کہا تھا،’’ لیڈر اگر اپنے ساتھ دیانت اور تبدیلی کا عزم لے کر آئے تو وہ سب کچھ کر سکتا ہے، ہر شعبے کا بہترین ماہر اسے دستیاب ہوسکتا ہے۔ ‘‘ بات درست ہے، لیکن لیڈر اگر ٹیم ہی بری بنائے، ہر شعبے سے ڈھونڈ کر خودغرض اور نالائق ماہر کو اپنے ساتھ بٹھا لے ، تب وہی ہوگا جو آج ہو رہا ہے۔ جیت کے لئے بہترین ٹیم درکار ہوتی ہے۔ بہترین کپتان بھی ناقص ، کمزور ٹیم کے ساتھ ڈیلیور نہیں کر سکتا۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود تجربہ کار اور اہل نہیں۔ یہ واضح ہوچکا کہ انہیں بہت سے باتوں کے بارے میں بالکل نہیں علم۔ معیشت کو وہ نہیں سمجھتے، مردم شناس نہیں،اپنا امپیکٹ (تاثر)نہیں بنا پا رہے۔ انہیں میڈیا کواستعمال کرنا نہیں آ رہا۔ سب سے بڑھ کر وہ بہت بری تقرریاں کر چکے ، مگر اپنی غلطیوں کو سدھارنے کو تیار نہیں۔ اناکے اسیر ہیں یا پھر ضعیف الاعتقادی کا شکار ۔ وجہ جو بھی ہوں، خان صاحب اچھی ٹیم نہیں بنا پائے۔ ان کی بدترین گورننس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے۔چینی، آٹا، گندم، پٹرول… ان تمام بحرانوں کو اچھے طریقے سے ہینڈل کیا جا سکتا تھا، اگر مطلوبہ اہلیت رکھنے والے لوگ ان کی ٹیم میں ہوتے۔ انہی غلطیوں کی وجہ سے عمران خان اپنے اثاثہ جات بے دردی سے تباہ کر رہے ہیں۔ ان کی دیانت اور تبدیلی کا عزم بھی بے اثر اور بیکار ثابت ہو رہا ہے۔ وہ ساٹھ ماہ کے لئے اقتدار میں آئے ہیں، وہ بھی اگر سب کچھ ٹھیک رہے جو کہ پاکستان میں معمول نہیں۔ آخری چھ ماہ میں ہر حکومت کمزور ہوتی ہے، انگریزی محاورے کے مطابق Lame Duck۔ بڑا ریلیف وہ نہیں دے سکتی۔ باقی بچے چون ماہ ۔ چون میں سے بائیس ماہ گزر چکے ہیں۔ یعنی چالیس فیصد وقت ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اگرو ہ شرمندگی سے بچنا چاہتے ہیں، حقیقی تبدیلی لانے کے خواہشمند ہیں تو اپنی ٹیم تبدیل کریں۔خان صاحب اس ٹیم کے ساتھ آپ ورلڈ کپ نہیں جیت سکتے۔ ٹیم خواہ کتنی کمزور ہو، جیتنے کے لئے اس میں جاوید میانداد اور وسیم اکرم جیسے میچ ونر لازمی ہونے چاہئیں،عاقب اور رمیز جیسے درمیانے اور انضمام ، مشتاق جیسے کرشمہ ساز لڑکے بھی ضروری ہیں۔گر یہ نہیں تو پھر سب کہانیاں ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.