مکہ کے پہاڑ بنجر کیوں ہیں؟

مولانا یونس پالن پوری ایک واقعہ سناتے ہیں کہ جب میں عمرہ کرنے گیا تو آصف شیخ مجھے ساتھ لے کر ایک ڈاکٹر علوی صاحب کو مبارکباد دینے گیا کہ انہیں بادشاہ نے شہریت دی تھی۔ وہ ڈاکٹر بھی کیا کمال کے تھے۔ پوچھنے لگے”شاہ صاحب، کہاں جا رہے ہیں آپ؟“ میں نے کہا”

جدہ کا قصد کیا ہے“ کہنے لگے آپ میرے ساتھ چلیں گے۔جب یہ پتہ چلا کہ وہ مجھے پڑھتے ہیں اور بھی خوشی ہوئی۔ سفرکا آغاز ہوا تو انہوں نے اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے ایک عجیب و غریب سوال کردیا ”مکہ کے پہاڑ اتنے بنجر کیوں ہیں؟“ اپنا علم تو وہیں دھرا رہ گیا۔ وہ پھر گویا ہوئے” شاہ صاحب میں نے دنیا کے کئی پہاڑ دیکھے مگر وہ مکہ کے پہاڑوں کی طرح بنجر اور بے آب و گیاہ نہیں ہیں؟ اس کے پیچھے اللہ کی منشا کیا ہے“؟ میں نے تو سر نڈر کر دیا۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے ”قبلہ اللہ پاک چاہتے تھے کہ آنے والے حاجیوں کی توجہ صرف میرے گھر پر رہے اس شہر کو پکنک پوائنٹ نہیں بنایاجائے گا۔بات دل کو لگی۔ یہ پرانا واقعہ مجھے اب کیوں یاد آیا؟ اس کے پیچھے ہمارے دوست انگریزی ادب کے استاد اسد اعوان ہیں جنہوں نے مجھے ایک ویڈیو بھیجی اور ساتھ تاکید کی کہ یہ جو رمضان شریف میں چینلز پر طوفان بدتمیزی چل رہا ہے اس کے خلاف لکھیں۔ میں نے وہ ویڈیو دیکھی تو چونک اٹھا۔ اس میں ایک عالم دین بڑی صراحت ‘وضاحت کے ساتھ موجودہ سحر و افطار پر لگنے والے میلوں کی حقیقت پر روشنی ڈال رہے تھے۔بات سمجھ میں آئی، دل کو لگی۔ سچ کہا انہوں نے کہ یہ باقاعدہ سوچی سمجھی سازش کے ساتھ مختلف میڈیا مالکوں کو کروڑوں روپے دیئے جارہے ہیں کہ رمضان کا تقدس پامال کرو، سحر و افطار کے اوقات کو تفریح بنا دو۔

انہوں نے مکہ کے اس عکاس میلہ کا حوالہ دیا کہ قبل اسلام جب لوگ مکہ میں خانہ کعبہ عبادت کے لئے آتے تو وہاں عکاس کا میلہ لگا ہوتا تھا۔ گویا زمانہ جہالت میں یہی کچھ ہوتا ہے۔اس کا چھوٹا موٹا عکس درباروں پر لگنے والے عرسوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ جہاں سرکسی موت کا کنواں اور کئی اور خرافات ہوتی ہیں۔ مجھے معاً خیال آیا کہ واقعی رمضان کوئی فیسٹیول نہیں ہے۔ خدا کے لئے آﺅ بیٹھ کے سوچیں واقعی سب کچھ ایسے ہی نہیں ہو رہا۔ وہ اوقات جو اللہ کی رحمتیں لوٹنے کے ہیں سب ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں۔وہ گھڑیاں جو دعائیں مانگنے کی ہوتی ہیں ہم کیا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔سراسر لہو و لعب، کھیل تماشہ اور رنگ بازی، نام اس کا رمضان سپیشل ہوتا ہے۔ اللہ ہم پر رحم کرے ۔ میں نے کراچی کے اس ڈرامہ مولوی کو دیکھا ۔ یقین کیجیئے یہ کلپ کسی نے بھیجا۔ وہ حضرت زبان نکال کر کے اداکاری کر رہے ہیں۔ دو سنگرز کچھ گا رہی ہیں۔ حاضرین تالیاں پیٹ رہے ہیں۔ کہیں انعامات کی بارش ہو رہی ہے اور کہیں موبائل بانٹے جارہے ہیں۔بجا کہا ان عالم دین نے کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پیکٹ کرنے والوں نے پروگرام کے لئے ماڈل کو ضروری قرار دیا ہے اور اس کے ساتھ کچھ دین فروش مولوی بھی ہائر کر لئے جاتے ہیں تاکہ اس پروگرام کو اسلامی کہا جا سکے۔ وہ عالم دین کہنے لگے میں تو دو تین سال پہلے تو بہ تائب ہو گیا اور کسی چینل پر نہیں جاتا۔ معزز قارئین! میں بھی ان پروگرامز کو نہ صرف جائز سمجھتا تھا بلکہ میں نے ان کے حق میں لکھا بھی کہ کیا حرج ہے کہ اداکار اور اداکارائیں اسی بہانے اللہ اور اس کے رسول کا ذکر کر لیتی ہیں۔اور یقیناً اچھی باتیں ان پر اثر انداز بھی ہوتی ہوں گی۔ ہو سکتا ہے میرے دل میں کہیں یہ خواہش بھی چھپی ہو کہ روشن خیالوں اور دنیا داروں سے میں خوب داد پاﺅں گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.