بریکنگ نیوز: پنجاب میں ایک نہیں دو بڑی تبدیلیاں آنے والی ہیں ۔۔۔۔۔ سینئر صحافی اشرف شریف نے بڑا دعویٰ کردیا گیا

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اشرف شریف اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بظاہر یہ عجیب بات ہے کہ عام انتخابات سے دو ڈھائی سال پہلے ایک ایسا حلقہ پی ٹی آئی کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے جہاں اسے جیتنے کے لیے پچاس ہزار ووٹ مزید لینا ہوں گے۔

رائے حسن نواز کا ووٹ بینک ہے۔ ان کے ووٹ بینک کی وجہ سے سید صمصام بخاری نے رینالہ کی بجائے ساہیوال کے نواح والے صوبائی حلقے سے الیکشن جیتا۔ صمصام بخاری اس وقت پنجاب کابینہ میں شامل ہیں۔چودھری سرور بھی رائے حسن نواز پر انحصار کر رہے ہیں۔ چودھری سرور نے اپنے آبائی علاقے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں انتخابی تیاریاں شروع کر رکھی ہیں۔ ان کا ہوم ورک بتاتا ہے کہ وہ مرکز میں کوئی اہم ذمہ داری نبھانے کے آرزو مند ہیں۔ چودھری سرور گورنر ہیں‘ آئین کی رو سے گورنری چھوڑنے کے دو سال سے پہلے وہ کسسی انتخابی عمل میں بطور امیدوار شریک نہیں ہو سکتے۔ ہڑپہ سے ان کے الیکشن لڑنے کی خبر کو درست مان لیا جائے تو پھر اس بات کا امکان موجود ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں چودھری سرور گورنر شپ سے سبکدوش ہوسکتے ہیں۔ ایسا ہوا تو نئے گورنر کی تعیناتی ہوگی۔ نیا گورنر پی ٹی آئی سے لیا جاتا ہے یا اتحادیوں کی دلجوئی کا سامان ہوتا ہے یہ معاملات دلچسپی کا باعث ہوں گے۔ طیور اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔ کچھ لوگ بڑی تبدیلیوں کی خبر دے رہے ہیں۔ اپوزیشن ان خبروں پر تبصرہ کرنے سے گریزاں ہے‘ اسے معلوم ہے کہ یہ سب حکومت کا داخلی انتظام ہے۔ اپوزیشن کو کہیں سے حصہ ملنے کی امید نہیں۔ تونسہ اور ساہیوال میں کہانیوں کے ٹکڑے بکھرے ہوئے ہیں۔ ان ٹکڑوں سے تحریک انصاف کے پائوں زخمی ہو سکتے ہیں۔ ساہیوال میں تو پی ٹی آئی کارکن اور مقامی ذمہ دار نالاں دکھائی دیتے ہیں کہ انتظامی مشینری انہیں اجنبی سمجھتی ہے اور دو تین حویلیوں کے پھیرے لگا کر نوکری پکی کر رہی ہے۔ یہ سوال تو اب بھی تشنہء جواب ہے کہ آخر گورنر اور وزیر اعلیٰ بیک وقت ساہیوال پر کیوں مہربان ہو رہے ہیں ،پنجاب میں ایک تبدیلی آنے کی اطلاعات کونوں کھدروں سے باہر آ چکی ہیں ،دوسری تبدیلی آثار سے ظاہر ہو رہی ہے ۔ ایک انتخابی حکمت عملی کو بروئے کار لانے کے اشارے ہیں،فرض کیجیئے ایک آرڈیننس کے ذریعے جنوبی پنجاب کو عبوری صوبہ بنا دیا جاتا ہے تو عثمان بزدار کو وہاں بھیجا جا سکتا ہے۔دوسرا یہ کہ ان تمام انتخابی حلقوں پر توجہ دی جائے جہاں سے ن لیگ بھاری مارجن سے جیتی اس سے آئندہ انتخابات کی تصویر میں نئے رنگ ابھر سکتے ہیں۔تحریک انصاف نے اگر انتخابی تیاری شروع کر دی ہے تو پھر تین سال سے رکے ترقیاتی فنڈز کا منہ بھی کھولنا پڑے گا۔ ایک نقشہ بنا کر دیکھئے‘ اس نقشے میں کردار اور چہرے بدل دئیے جائیں‘ اختیارات گورنر‘ وزیراعلیٰ اور سپیکر میں تقسیم کرنے کی بجائے ایک ہی شخص کو بااختیار بنا کر پنجاب اس کے سپرد کردیا جائے تو کیسا لگے گا؟

Leave a Reply

Your email address will not be published.