
فوادچوہدری نااہلی کیس : سیاسی معاملات عدالتوں میں نہ لائیں ورنہ ۔۔۔۔۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اہم ریمارکس
اسلام آباد (ویب ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کی نااہلی کا کیس عوامی نمائندوں کیخلاف دیگر کیسز کیساتھ یکجا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 9 مارچ تک ملتوی کر دی ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالتوں کو سیاسی معاملات
میں کیوں شامل کیا جاتا ہے؟ گزشتہ روز سماعت کے دوران درخواست گزار سمیع ابراہیم اور وفاقی وزیر فواد چوہدری عدالت پیش ہوئے۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ عدالت آپکی درخواست کیوں سنے؟ عوامی نمائندوں کیخلاف درخواستوں پر ہمارا ایک مستقل موقف رہا ہے ، جہاں عوامی مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہو وہاں عدالت اپنا اختیار استعمال کرتی ہے ، جتنے سیاسی کیسز آ رہے ہیں اس میں جو فیصلہ آتا ہے مخالف پارٹی تنقید کرتی ہے۔میڈیا کسی بیگناہ کو مجرم اور مجرم کو بیگناہ ثابت کرتا ہے، عدالتوں کو سیاسی معاملات میں کیوں شامل کیا جاتا ہے؟ درخواست گزار کے وکیل نے کہاکہ نواز شریف کیخلاف بھی انہی عدالتوں نے فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ آرٹیکل 199 کے تحت آ جائیں ، اس آرٹیکل کے تحت عدالتوں پر پہلے ہی بہت بوجھ ہے ، ایک کیس میں فیصلہ ہائیکورٹ نے دیا اسے سپریم کورٹ نے بحال کر دیا ، اگر عوام غلط لوگوں کو منتخب کرتی ہے تو کرنے دیں، آپ عدالت کو کیوں شامل کرتے ہیں؟ سیاسی معاملات کیلئے دیگر پلیٹ فارمز ہیں، درخواست گزار نے کہا کہ درخواست پر جو فیصلہ ہے کر دیں تاکہ ہم دیگر پلیٹ فارمز پر جا سکیں، چیف جسٹس نے کہا یہ ہمارا کلچر بن گیا ہے، سیاسی قائدین کو اس پر کام کرنا ہو گا ، سیاسی قائدین کی ذمہ داری ہے کہ کارکنان کو مغلطات سے روکے ، جس کیخلاف فیصلہ آتا ہے سوشل میڈیا پر تنقید شروع کر دیتا ہے، درخواست گزار نے کہاکہ میرے الزامات اگر ٹھیک نہیں تو اس کیس کو مثال بنائیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جس راستے پر ہم چل پڑے ہیں ہم اپنی آنیوالی نسل تباہ کر رہے ہیں۔ درخواست گزار نے کہاکہ اسے ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جائے اور اگر میں غلط ہوں تو عبرت کا نشان بنایا جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ٹیسٹ یہی ہے کہ اس طرح کے کیس اس عدالت میں نہ لائیں ، جب کسی عوامی نمائندے کو نااہل کریں تو نقصان حلقے کے عوام کا ہوتا ہے ، جو کچھ عدالتوں کیساتھ ہو رہا ہے عدالتیں کیوں اب یہ سنیں؟
Leave a Reply