اور تو کوئی امید نہیں ایک کام ہو جائے تو عوام پی ڈی ایم کی کال پر سڑکوں پر آجائیگی ۔۔۔۔ سینئر کالم نگار کا خصوصی تبصرہ

‘لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار عمران یعقوب خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس کر دیں تو میں کل ہی استعفا دے دوں گا‘‘ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو یہ چیلنج کیوں دیا؟ اس کا بہتر جواب تو

وزیراعظم خود ہی دیں سکتے ہیں۔ ‘نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی‘ کے مصداق وزیراعظم کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ یہ دونوں کام ہی نہیں ہوں گے۔ مسلم لیگ ن کی خواہش ہے کہ 4 فروری کے پی ڈی ایم سربراہی اجلاس میں لانگ مارچ کی تاریخ پر اتفاق ہو جائے اور اسلام آباد میں پہنچ کر دھرنا بھی دیا جائے۔ لیگی رہنماؤں کے مطابق پیپلز پارٹی لانگ مارچ کو دھرنے میں تبدیل کرنے پر تحفظات رکھتی ہے۔ مسلم لیگ ن اب استعفوں کا آپشن اس وقت استعمال کرنا چاہتی ہے جب عوام سڑکوں پر ہوں تاکہ حکومت کو ضمنی الیکشن کی طرف جانے کا موقع نہ دیا جائے‘لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ اپوزیشن جماعتیں سڑکوں پر اترنے سے پہلے اپنا ہوم ورک مکمل کرلیں۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تمام جماعتیں بھرپور طریقے سے اپنے ورکرز، ووٹرز اور سپورٹرز کی ایک بڑی تعداد کو ملک کے ہر کونے سے لے کر اسلام آباد کی طرف مارچ کریں۔ یہ بات بھی ذہن نشین ہوکہ سینیٹ الیکشن کے نتائج بھی اس مارچ کے تعین میں اہم ہوں گے۔ اگر اپوزیشن واقعی بڑا سرپرائز دینے میں کامیاب ہوگئی تو شاید عوام پی ڈی ایم کے بدلتے مؤقف اور ناکام حکمت عملیوں کو نظرانداز کرکے سڑکوں پر آنے کیلئے راضی ہو جائیں۔ اس اجلاس میں یہ بھی طے ہونا ہے کہ لانگ مارچ کا رخ کس طرف ہوگا۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ 31 جنوری کی ڈیڈلائن گزرنے کے بعد اپوزیشن فیصلہ کرے گی کہ لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف کیا جائے گا یا پھر راولپنڈی کی طرف۔ اس پر پاک فوج کے ترجمان نے کہا تھاکہ پی ڈی ایم کا راولپنڈی کی طرف مارچ کا جواز نہیں بنتا‘ لیکن اگر وہ آئیں گے تو انہیں چائے پیش کی جائے گی۔ اگر آج پی ڈی ایم کوئی واضح فیصلے نہ کر سکی تو اس کیلئے اپنی رہی سہی ساکھ بچانا مشکل ہو جائے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.