: کیا عمران خان کی ساری توجہ اپنے فیملی فرینڈز کو منتخب کروانے پر ہے ؟

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔سینٹ ٹکٹوں کے حوالے سے ایسے شور و غوغا جاری ہے، جیسے سینٹ نہیں بلکہ جنت کا ٹکٹ ہو پہلی بار اتنی لے دے ہو رہی ہے وگرنہ اسی سینٹ کے انتخابات ہوتے تھے تو پتہ بھی نہیں چلتا تھا کہ

کب ہوئے، کیسے ہوئے، کون جیتا کون ہارا، سینٹ کی ٹکٹیں پارٹی سربراہوں کا کلی اختیار تھا اور اس حوالے سے ان پر کسی طرف سے کوئی قدغن بھی نہیں تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ ایک ایک ٹکٹ کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے، کیوں دی، کیسے دی، دباؤ اس قدر زیادہ ہے کہ وزیر اعظم بھی اپنی مرضی سے ٹکٹیں دینے سے قاصر نظر آتا ہے فیصلے تبدیل ہو رہے ہیں، الزامات لگ رہے ہیں، کروڑوں روپے لے کر ٹکٹیں دینے کی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم اپنے ذاتی دوستوں اور فیملی فرینڈز کو نواز رہے ہیں معاملہ تو شروع ہوا تھا سینٹ انتخابات میں ووٹوں کی خرید و فروخت کے الزام سے اور بات ٹکٹوں کی خریداری کے الزامات تک چلی گئی ہے یہ سینٹ آخر ہے کیا، کیا سونے کی کان ہے؟ کہ جس کا ممبر بننے کے لئے اتنی بڑی بڑی رقوم خرچ کر دی جاتی ہیں منتخب ہونے کے بعد کسی بھی سینٹر کو باقی ممبران پارلیمینٹ کی طرح ترقیاتی فنڈز ملتے ہیں، لیکن کیا وہ اتنے ہوتے ہیں کہ جن کے لئے کروڑوں روپے دے کر ٹکٹ خریدا جائے کہیں ایسا تو نہیں کہ قانون سازی کے موقع پر خود سینٹرز اپنی بولیاں لگواتے ہیں اور اپنے خسارے کو پورا کرتے ہیں۔آج کے کالم کا موضوع سینٹ ٹکٹوں کی تقسیم ضرور ہے تاہم مدعا یہ نہیں جو اوپر بیان ہوا ہے قصہ یہ ہے کہ سینٹ ایک ایسا آئینی ادارہ ہے، جس میں تمام صوبوں کی برابر

نشستیں رکھی گئی ہیں اگرچہ آئین بنانے والوں نے اس بات کو یقینی نہیں بنایا کہ ایک صوبے کی نشستیں صوبے کے تمام علاقوں میں تقسیم ہونی چاہئیں تاکہ سینٹ میں بھی پورے صوبے کی نمائندگی ہو۔ یہ اتنا بڑا خلا ہے جس کی وجہ سے سینٹ ایک مخصوص طبقے کا ہابی کلب بن کر رہ گیا ہے اگر صوبے کے اندر سے بھی مساوی نمائندگی کو لازمی قرار دیا جاتا تو شاید آج یہ شکایت نہ ہوتی کہ سینٹ انتخابات میں ووٹ بکتے ہیں پیسہ چلتا ہے پھر شاید ارب پتی امیدواروں کی اس طرح ریل پیل بھی نہ ہوتی جس طرح اب انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر ووٹنگ کے مراحل تک دیکھنے میں آتی ہے۔ کہنے کو سینٹ چاروں صوبوں اور وفاق کا نمائندہ ایوان ہے، جس میں صوبوں کی مساوی نمائندگی موجود ہے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ سینٹ میں زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جو چند برے شہروں یا حکمرانوں کے قریب رہتے ہیں سینٹرز کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں اکثریت کا تعلق ایلیٹ کلاس سے ملے گا اور یہ حقیقت بھی کھلے گی کہ ایک ہی شہر سے تعلق رکھنے والے کئی سینٹرز ہوں گے جبکہ زیادہ شہر ایسے ہوں گے جنہیں کبھی سینٹ میں نمائندگی ہی نہیں ملی۔ جب یہ فارمولا طے پا جائے کہ جو حکمرانوں کے جتنا قریب ہوگا اتنا ہی اسے ٹکٹ ملنے کے چانسز زیادہ ہوں گے تو طول و عرض میں موجود سیاسی کارکنوں، اپنے شعبے میں حد درجہ مہارت رکھنے والے ٹیکنو کریٹس اور چھوٹے

شہروں میں خواتین کے حقوق کی خاطر قربانیاں دینے والے سیاسی ورکروں کو سینٹ کا ٹکٹ کیونکر ملے گا۔ اب آپ یہی دیکھیں کہ پنجاب میں سینٹ کی گیارہ نشستوں کے لئے انتخابات ہو رہے ہیں تاہم جنوبی پنجاب کے لئے صرف ایک ٹکٹ جاری کی گئی ہے اور وہ تحریک انصاف نے عون عباس کو جاری کی ہے کہنے کو سید یوسف رضا گیلانی کا تعلق بھی جنوبی پنجاب سے ہے لیکن انہیں پنجاب کے کوٹے سے ٹکٹ نہیں ملی بلکہ وہ اپنا ووٹ اسلام آباد منتقل کرا کے اس ٹکٹ کے حقدار ٹھہرے ہیں مسلم لیگ (ن) نے جنوبی پنجاب کو سرے سے کوئی ٹکٹ ہی نہیں دی۔حالانکہ آبادی جنوبی پنجاب کی بھی اتنی ہی ہے کہ جتنی بالائی پنجاب کی کیا وجہ ہے کہبالائی پنجاب کے لئے دس نشستیں اور جنوبی پنجاب کے لئے صرف ایک نشست کیا جنوبی پنجاب کے لئے سینٹ شجر ممنوعہ ہے کیا؟ سیاسی جماعتوں کو کم از کم اپنے پانچ امیدوار جنوبی پنجاب سے نہیں لینے چاہئیں تھے۔ کیا یہ جنوبی پنجاب کے کروڑوں عوام سے زیادتی نہیں کہ اس طرح نظر انداز کیا جاتا ہے جہاں سینٹ میں صوبوں کی آواز اٹھانے کے لئے برابر نمائندگی کا قانون رائج ہے وہاں صوبوں کے مختلف علاقوں کی یکساں نمائندگی کا خیال کیوں نہیں رکھا جاتا۔ جب سینٹ میں جنوبی پنجاب کے چھ کروڑ عوام کی مناسب نمائندگی ہی نہیں ہو گی تو ان کی آواز کون اٹھائے گا۔ یہ ایسا سوال ہے جو ہر دور میں پوچھا جاتا رہا ہے، لیکن سیاسی جماعتوں نے کبھی

اس پر غور نہیں کیا وہ اس حوالے سے صریحاً غلط کرتی رہی ہیں پارٹی سربراہوں کے خلاف کبھی کسی نے احتجاج نہیں کیا۔ایسے ہی طرز عمل کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں احساسِ محرومی جڑ پکڑ چکا ہے اسی طرح نظر انداز کئے جانے کے باعث مطالبہ کیا جاتا ہے کہ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنایا جائے علیحدہ صوبہ ہوگا تو سینٹ میں بھی جنوبی پنجاب کی برابر نمائندگی ہو گی بجٹ بھی اس کا اپنا ہوگا اور ترقیاتی کام بھی اس کی اپنی حکومت اپنی اسمبلی کرے گی حیرت اس بات پر ہے کہ موجودہ حکومت جو جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کا وعدہ کر کے اقتدار میں آئی، صوبہ تو کیا بناتی سینٹ میں جنوبی پنجاب کو مناسب نمائندگی دینے کا فرض بھی ادا نہ کر سکی یہ یہی تحریک انصاف ہے جس نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے نام پر ملتان اور نواح سے تاریخی کامیابی حاصل کی، ملتان سے تو تقریباً کلین سویپ کیا جس طرح دیگر معاملات میں کپتان نے یوٹرن لیا اسی طرح جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا وعدہ بھی بھول گئے۔ عوام کو مطمئن کرنے کے لئے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ قائم کرنے کا لولی پاپ دیا گیا، جو اب تک فعال ہوا ہے اور نہ افسروں کو اختیارات ملے ہیں، آج بھی حکم لاہور میں بیٹھی ہوئی بیورو کریسی کا چل رہا ہے اس کے بعد جنوبی پنجاب کی کپتان کی نظر میں کیا اہمیت رہ گئی ہے اس کا اندازہ سینٹ انتخابات میں پورے جنوبی پنجاب کو صرف ایک ٹکٹ دینے سے لگایا جا سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.