
پاکستانی نظام حکومت پر اوریا مقبول جان کا خصوصی تبصرہ
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔حقیقت حال واضح ہو کہ آج بھی پاکستان میں رائج ’’حلقہ جاتی جمہوری نظام ِ حکومت‘‘ میں کسی بھی بہتری کی توقع رکھنا خیالِ خام ہے۔ جوں جوں یہ انتخاب مسلسل ہوتے جائیں گے، حلقوں کے لوگوں میں گروہ بندیاں مزید
سخت سے سخت تر ہوتی چلی جائیں گی۔ متناسب نمائندگی والے الیکشنوں کے بعد دوسرا اہم ترین فیصلہ جو اس ملک کے استحکام اور بقا کیلئے ضروری ہے جو اس ملک کو نفرتوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب سے بچا سکتا ہے وہ انگریز کی بنائی ہوئی صوبائی تقسیم یعنی ان چار وفاقی اکائیوں سے نجات ہے۔ یہ چاروں صوبے جنہیں ہم ’’وفاقی اکائیاں‘‘ کہتے ہیں، انہیں بھی انگریز نے ہمیں تحفے میں دیا ہے۔ انگریز نے یہ صوبے ایسے تخلیق کیئے تھے کہ ان میں ایک بڑی لسانی اکثریت وہاں آباد لسانی اقلیت پر حکمران رہی اور جوتیوں میں دال بٹتی رہی ۔ بلوچستان میں بلوچ، پشتون اور بروہی تقسیم ایک آتش فشاں ہے، سندھ میں سندھی اور اردو بولنے والوں کی بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں، جبکہ پنجاب میں سرائیکی اور خیبر پختونخواہ میں ہندکو بولنے والے بھی کسی دن شعلہ جوالہ بن سکتے ہیں۔ دنیا کا ہر وہ ملک جس میں ایسے بڑے بڑے صوبے تھے جو اپنے اندر ایک آزاد ملک بننے کی اہلیت رکھتے تھے، وہ تمام ملک آج نفرتوں کے سیلاب میں بہہ کر بالاخر تقسیم ہو گئے۔ چیکو سلاویکیہ دو ملکوں، چیک اور سلویک میں تقسیم ہو گیا اور یوگو سلاویہ جیسے خوبصورت ملک سے سربیا، بوسنیا اور کروشیا جیسے تین ملک معرض وجود میں آگئے۔ انگریز کی کھینچی ہوئی ان لکیروں کا یہ کمال ہے کہ آج پاکستان دنیا کا وہ واحد بدقسمت ملک ہے جہاں کے سیاست دان پاکستان کو ختم کرنے کی باتیں تو عام کرتے ہیں، لیکن انگریز نے جو صوبوں کی لکیریں کھینچیں ہیں ان کے تحفظ کے لیئے کچھ بھی کرنے کے نعرے بلند کئے جاتے ہیں۔ جب تک یہ دو اقدا مات نہیں کئے جاتے اگلے سو سال بھی الیکشن ہوتے رہیں،پاکستان کا جمہوری کلچر نہیں بدل سکتا۔
Leave a Reply