الله تعالی نے سورہ الشمس میں اپنے بندوں سے گیارہ قسمیں کس چیز کی لی ہیں؟

الله تعالی نے سورہ الشمس میں گیارہ قسمیں لینے کے بعد جن موضوعات کو زیر بحث مذکور کیا اور روشنی ڈالی امت مسلمہ کے لئیے ان میں سے انسان کی تخلیق، اس کا شعور جس سے وہ خیر اور شر میں فرق کر سکتا ہے اور کامیابی کا بنیادی محور اور

جزء، نفس کی پاکیزگی اور تزکیہ ہے اور انسان کی نامرادی اور کلی خسارہ نفس کا تدسیہ اور اسے اللہ کی نافرمانی میں تحقیر کرنا ہے۔ اگرچہ انسان کی مٹی سے تخلیق اپنے اندر ہی ایک شرف، تکریم اور معجزہ سے کم نہیں مگر وہ شرف جو انسان کو اللہ کی طرف سے نصیب ہوا وہ اللہ کا انسان میں روح پهونکنا، صحیح غلط کا اختیار دینا، اختیاری عبودیت کی زمہ داری کا بوجھ اٹھانا اور زمین پر اللہ کے دین اور احکام کا بیڑا اٹھانے میں ہے “اني جاعل في الارض خليفة” کی زمن میں اللہ کی دی ہوئی اس ذمہ کی تکمیل میں ہے جو انسان کے وجود کی اصل بھی ہے اور عین وہ وضع بھی جس پر انسان کی تکمیل بھی منحصر ہے اور تحسین بھی۔ زندگی کے سفر میں انسان کو وہ ابتدائی احوال و واقعات کو ملحوظ خاطر اور ذہن نشین رکھنا چاہئیے جو اسے اپنی تخلیق کا اصل مقصد باور کراتے ہیں اور دنیا میں اپنی اصل فطرت اور ذہنی قلبی نظریاتی اور جذباتی عدل اور توسط کا احساس دلاتے ہیں۔ سیدہ کائنات حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کی رفعت و عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کے والد گرامی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبع نور ہدایت ہیں۔ آپ کے شوہر نامدار باب العلم ہیں۔ آپ کے بیٹے سرداران جنت ہیں، آپ کے انوار میں نور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلوہ گر ہے۔ آپ کے رگ و ریشہ میں خون مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

موجزن ہے۔ آپ کی پوری زندگی تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی تصویر پیش کرتی ہے۔کتب سیرت میں سیدہ کائنات حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بہت سے اسمائے گرامی بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے چند کا تذکرہ اس مضمون میں کیا جائے گا جس سے قارئین کے دلوں میں سیدہ کائنات کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت میں نہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ سیدہ کائنات رضی اللہ تعالی عنہا کی عظمت و مقام مرتبہ سے بھی شناسائی ہوگی۔ ذیل میں سیدہ کائنات کے اسمائے گرامی ان کی وجہ تسمیہ اور پس منظر بیان کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسوہ بتول رضی اللہ تعالی عنہپر احادیث کی روشنی میں تبصرہ بھی کیا گیا ہے۔فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہالفظ فاطمہ باب فاعلہ سے ہے جس کا معنی بالکل علیحدہ کردیا جانا ہے۔ لسان العرب کے مطابق اگر لکڑی کے ایک حصے کو کاٹ کر الگ کردیا جائے تو اسے تغطیم کہتے ہیں۔ بزار، طبرانی اور ابونعیم نے روایت کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ! جانتی ہو میں نے آپ کا نام فاطمہ کیوں رکھا؟ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ فرمادیجئے کہ ان کا نام فاطمہ کیوں رکھا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فاطمہ اور ان کی اولاد کو نار جہنم سے بالکل الگ کررکھا ہے‘‘۔ (الاستیعاب، ج 2، ص 752)اس معانی میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سم بامسمی ہیں۔ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اور آپ کی اولاد کو دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھنا اس امر کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ آپ کا عزوشرف اللہ کی بارگاہ میں بہت زیادہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اللہ تعالی عنہا کو پیار سے فاطم کہہ کر پکارتے تھے۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی آپ کو فاطم کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔بتول رضی اللہ تعالی عنہاسیدہ کائنات حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بتول کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے۔ معانی کے لحاظ سے یہ لفظ بتل سے نکلا ہے جس کا معنی سب سے ٹوٹ کر اسی کے ہو رہنا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.