عثمان بزدار کی چھٹی ۔۔۔؟؟کیا چوہدری پرویز الٰہی منظور وٹو فارمولے کے تحت اگلے وزیراعلیٰ پنجاب بننے والے ہیں ؟ صف اول کے صحآفی کا جاندار سیاسی تبصرہ

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ سمجھا جائے کہ عثمان بزدار نے اپنی تبدیلی کی افواہوں کا توڑ کرنے کے لئے کھل کر کھیلنے کا فیصلہ کر لیا یا اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے اپنا ایک مثبت امیج بنانا اور

چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں،ابھی تک پارٹی کے اندر سے اُن کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا، شروع دن سے اُن کے خلاف جو پروپیگنڈہ مہم چلی اُسے ہمیشہ عمران خان نے عثمان بزدار کی پیٹھ ٹھونک کر ناکام بنایا۔ اب بھی صورتِ حال یہی ہے کہ تحریک انصاف کے اندر سے کوئی بڑے سے بڑا لیڈر بھی عثمان بزدار کی وزارتِ اعلیٰ پر انگلی نہیں اٹھا سکتا، چونکہ عثمان بزدار پر انگلی اٹھانے کا مطلب ہے، وزیراعظم عمران خان کی مرضی و منشاء کے خلاف قدم اٹھانا، جس کا رسک کوئی پارٹی رہنما نہیں لے سکتا۔ ہاں باہر سے عثمان بزدار کے لئے خطرات ضرور موجود ہیں تاہم وہ خطرات صرف عثمان بزدار کے لئے نہیں،خود وزیراعظم عمران خان کے لئے بھی ہیں، کیونکہ اب جو کھچڑی پک رہی ہے وہ مرکز سے زیادہ پنجاب میں تبدیلی لانے کی ہے اور پی ڈی ایم نے عثمان بزردار کو آسان ہدف سمجھ لیا ہے۔کہا یہ جا رہا ہے کہ آصف علی زرداری منظور وٹو فارمولے جیسا کوئی کھڑاک کرنا چاہتے ہیں۔یاد رہے کہ تقریباً تین دہائی پہلے اکثریت نہ ہونے کے باوجود میاں منظور احمد وٹو جوڑ توڑ کی سیاست بروئے کار لا کر پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے تھے۔اُس وقت ملک کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو تھیں۔اس وقت سبھی جانتے ہیں کہ صرف اسی فارمولے کے تحت پنجاب میں تحریک انصاف اور عثمان بزدار کی حکمرانی ختم کی جا سکتی ہے۔آج کا منظور وٹو چودھری پرویز الٰہی کو سمجھا جا رہا ہے۔ وہ اگر پی ڈی ایم کے ساتھ مل جائیں تو پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو سکتی ہے۔

ویسے تو چودھری برادران نے ایسے کسی فارمولے کو خارج از امکان قرار دیا ہے اور یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ حکومت کے اتحادی ہیں اور اُس کے ساتھ کھڑے ہیں،مگر سب جانتے ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی کی اُس وقت بھی وزیراعلیٰ بننے کی خواہش تھی، جب2018ء کے انتخابات میں انہیں پنجاب سے فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی نشستیں ملیں۔ وزیراعظم عمران خان نے عثمان بزدار کو تونسہ سے لا کر وزیراعلیٰ بنا دیا تو چودھری پرویز الٰہی کو خاصی مایوسی ہوئی۔ اب وہ حکومت کا اتحادی ہونے کی بات خود عمران ان کو بھی یہ پیغام دینے کے لئے کر رہے ہیں۔ عثمان بزدار کی جگہ اُنہیں وزیراعلیٰ بنا دیا جائے تو حکومت پی ڈی ایم کی سیاسی پریشر سے محفوظ ہو جائے گی۔اب اس سارے کھیل میں عثمان بزدار خاموش تماشائی تو نہیں رہ سکتے۔وہ آخر پنجاب کے تخت پر بیٹھے ہیں، جسے سرکانے کے لئے پی ڈی ایم کوشاں ہے، ان کی چودھری برادران سے ملاقاتیں بھی معمول سے زیادہ ہو چکی ہیں اور ارکان اسمبلی سے بھی مل رہے ہیں، تیسرا محاذ عوام کا ہے جن کے مسائل حل کرانے کے لئے انہوں نے تازہ ترین اعلان یہ کیا ہے کہ مختلف شہروں کے سرپرائز وزٹ کریں گے،جہاں کہیں غفلت نظر آئی، کوئی رعایت نہیں دیں گے،اس وقت گیم خاصی پلٹ چکی ہے۔ اب کپتان کو اپنے پسندیدہ کھلاڑی کی اعلیٰ پرفارمنس درکار ہے تاکہ پنجاب کے محاذ کو خالی نہ چھوڑا جائے۔ عثمان بزدار کو اتنا تو معلوم ہوگا ہی کہ پنجاب میں تبدیلی لانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلم لیگ (ن) ہے۔ وہ منظور وٹو فارمولے کو بھی سپورٹ نہیں کرے گی جیسا کہ مریم نواز نے کل ہی مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو کی موجودگی میں کہا ہے کہ اقلیت رکھنے والے کسی شخص کو وزیراعلیٰ بنانے کی حمایت نہیں کریں گے۔گویا دوسرے لفظوں میں انہوں نے پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کی تجویز کو خارج از امکان قرار دے دیا ہے، باہر سے مسلم لیگ(ن) ڈھال بن گئی ہے،اندر سے کنڈی عثمان بزدار کو خود لگانی چاہئے تاکہ پارٹی کے اندر نقب لگا کر کوئی اندر نہ گھس آئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.