2021 کا پاکستانی معاشرہ : اس معاشرے کے مرد گھر سے نکلتے ہیں تو ہر موڑ اور چوک پر فیشن ایبل و ماڈرن لڑکیاں دیکھنا چاہتے ہیں مگر اپنے گھر کی خواتین کو سات پردوں میں چھپا کر رکھنے کے متمنی ہوتے ہیں ، مگر کیوں ؟ صف اول کے صحافی کی انوکھی تحریر

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار علی عمران جونیئر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ڈاٹ قوم ایک طرف تو مغربی کلچر اپنانا چاہتے ہیں اور دل میں یہی تمنا لے کر نکلتے ہیں کہ آگے ہر چوک چوراہے پر فیشن زدہ اور ماڈرن لباس میں ملبوس دوشیزائیں نظر آئیں

جبکہ اپنے گھر موجود خواتین کو سات پردوں میں بند رکھنے کو مشرقی کلچر کہہ کر جائز قرار دیتے ہیں۔۔اس ڈاٹ قوم کایہ حال ہے کہ قومی ترانہ فارسی میں، مذہبی تعلیم عربی میں، دنیاوی تعلیم انگریزی میں، گھر میں اردو، امریکی گرین کارڈ کے خواہش مند اور مکہ ، مدینہ میں تدفین کے ہمیشہ سے خواہش مند رہتے ہیں۔۔ جس کے پاس روزگار ہے نہ نوکری، روٹی ہے نہ زندگی کا کوئی سہارا، باقی جو رہ گیا تو کبھی گیس ،پانی غائب توکبھی بجلی نہ ہونے سے مکمل اندھیرا۔۔ جہاں پیزا پولیس سے پہلے پہنچ جاتا ہے، کار خریدنے کے لیے قرض سو فیصد لیکن تعلیم کے لیے بیس فی صد، چاول ایک سو ستر روپے کلو لیکن فون کی سم مفت۔۔ جوتے اے سی والی دکان میں اور کھانے کی سبزیاں فٹ پاتھ پر۔۔ لیمن جوس پینے کے لیے مصنوعی خوشبو کے ساتھ لیکن برتن دھونے کے لیے اصلی لیموں۔ MBA اور M,A پاس بے روز گار مگر ایک جاہل ایم پی اے یا ایم این اے۔۔ جہاں پانی کی ٹنکی سے لے کر قبروں تک میں ہتھیار مل جاتا ہے، لیکن چْھری والا آدمی نہیں مل رہا جو کھلے عام خواتین پراٹیک کرتا ہے۔۔ جہاں وزیراعظم بیروزگار ہوجائے تو خوشیاں منائی جاتی ہیں۔۔ جو ڈاکٹر کی دوا سے دو دن تک آرام نہ آئے تو ڈاکٹر بدل دیتے ہیں لیکن برسوں سے اسی چور اور عوام دشمن گروہ سے امید لگائے بیٹھے ہیں جوقومی خزانے کو ـ’’وڈے ٹیکے‘‘ لگانے میں دن رات مصروف رہتے ہیں۔۔۔ جہاں عوام چوری کی بجلی سے کمپیوٹر آن کرکے پوچھتے ہیں بدعنوان حکمرانوں سے کب نجات ملے گی۔۔ جوبغیر کام کئے تنخواہ

چاہتے ہیں۔۔بغیر ورزش کے صحت مند رہنا چاہتے ہیں۔۔بغیر محنت کئے ترقی کرنا چاہتے ہیں۔۔اپنے ملک کا حشر نشر ہو چکا ہے پورا ملک لوٹ کر عوام کا خزانہ بیرون ملک منتقل کردیا گیا ہے لیکن عوام کو اس بات میں زیادہ دل چسپی ہے کہ گیلانی چیئرمین سینیٹ بنے گا یا سنجرانی۔۔ جہاں رشوت کو چائے پانی کہتے ہیں۔۔ ماؤں نے نارمل طریقے سے بچے جننے چھوڑ دیئے ۔ شہد کے نام پر چینی، شکر اور گْڑ کا شیرہ ملتا ہے ۔۔جو پیٹرول بھی چوری کرتے ہیں ساتھ ساتھ سگریٹ بھی پیتے ہیں پھر درجنوں کی تعداد میں انا للہ بھی ہوتے ہیں۔۔یہ بھی اسی قوم میں ہوتا ہے کہ آپ کو رات تین بجے اچانک کوئی دوست موبائل پر فون کرتا ہے اورآپ کی غنودگی سے بھرپور آواز سن کر کہتا ہے۔۔ابے یار سو رہاتھا کیا؟ ۔۔۔ اب کیا رات کے تین بجے نائٹ کرکٹ میچ کھیلیں؟۔۔۔ بازار میں اچانک کوئی جاننے والا مل جائے تو وہ لازمی پوچھتا ہے۔۔ ابے یارتو یہاں کیا کررہا ہے؟۔۔۔ بھائی جمعہ پڑھنے گیا تھا وہاں بہت رش تھاتو سوچا ادھر ہی آجاؤں۔۔۔ اسپتال میں کوئی جاننے والا مل جائے تو لازمی سوال کرے گا خیریت تو ہے؟۔۔ اب اسپتال میں کیا ڈنر کرنے جاتا ہے کوئی؟۔۔۔۔سینما میں فلم دیکھنے جائیں تو وہاں بھی جاننے والے مل جاتے ہیں اور حیرت سے پوچھتے ضرور ہیں کہ یہاں کیا کرنے آئے ہو؟۔۔۔ بھائی جو تم کرنے آئے ہووہی ہم کرنے آئے ہیں، کیوں کہ ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے ، جو تم کروگے وہی ہم بھی کریں گے۔۔سبزی والے کی دکان پر کوئی دوست مل جائے توحیرت کااظہار یوں کرے گا،

اچھا تو سبزی خریدی جارہی ہے؟۔۔ جی جناب یہ بندہ سبزی بیچ رہا ہے، اگر نسوار بیچ رہا ہوتا تو لازمی پھر وہی خرید رہا ہوتا۔۔ہمارے پیارے دوست ایسے لوگوں سے بہت تنگ ہیں ، کہتے ہیں کہ۔۔مسجد میں جاؤ نمازیں پڑھو۔۔مارکیٹ جاکرشاپنگ کرو۔۔ اسکول و کالج جاکر تعلیم حاصل کرو۔۔ہرجگہ لوگ اس طرح حیرت سے سواگت کرتے ہیں جیسے ہم کوئی انوکھا کام کررہے ہیں۔۔ اسے تو اس بات پر بھی غصہ آتا ہے کہ جب وہ اپنی کسی گرل فرینڈ کے ساتھ تفریح کی غرض سے کہیں جاتا ہے تو وہاں بھی اسے جاننے والے مل جاتے ہیں،اور ہر بار کہتے ہیں۔۔ پہلے والی بھابھی زیادہ خوب صورت تھی۔۔یہ بھی اسی ’’ڈاٹ قوم‘‘ کا طرہ امتیاز ہے کہ یہاں جتنا بڑا دونمبری ہوگا، حاجی صاحب کہلائے گا۔۔جہاں گھر کے ماتھے پہ’’ہذا من فضل ربی‘‘ لکھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ۔۔خبردار مجھ سے مت پوچھنا یہ گھر کیسے بنایا۔۔جہاں مجرم کا دفاع استغاثہ کا وکیل کرتا ہے۔۔۔ جہاں نمبر ایک ہونے کیلئے نمبر 2 ہونا ضروری ہے۔۔۔جو موروثیت کو جمہوریت گردانتی ہے۔۔۔جہاں حق رائے دہی قیمے والے نان اور بریانی کے ڈبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔۔جہاں اربوں ہڑپ کر جانے والے ’’ایک دھیلے کی چوری ‘‘ نہ کرنے کی قسم کھا لیتے ہیں۔۔جہاں راشی کے ماتھے پر محراب ہوتی ہے۔۔ایک داڑھی والے منصب دار سے کسی نے کہا شرم نہیں آتی داڑھی رکھ کر چوری کرتے ہو؟جواب ملا کہ داڑھی گلے تک جاکر ختم ہو جاتی ہے۔ اس سے آگے پیٹ شروع ہو جاتا ہے۔۔جہاں حرام نہ کھانے والے کو کمزور اور بیوقوف گردانا جاتا ہے۔۔جہاں بدمعاش کی عزت کی جاتی ہے اور شریف کو ٹکے کوڑی کا سمجھا جاتا ہے۔۔جہاں جھوٹ بولنے والا مشہور ہو کر صحافی کہلاتا ہے۔۔جہاں لوگ غیرت کے نام پر جانیں لے لیتے ہیں مگر دو دو ٹکے کیلئے اپنا ضمیر اپنی عزت بیچ دیتے ہیں۔۔۔اسی ڈاٹ قوم کے لوگوں کو اپنے گناہ صرف تب یاد آتے ہیں جب زمین لرزتی اور آسمان کپکپاتا ہے۔۔اورچلتے چلتے آخری بات۔۔۔دکھ اس بات کا نہیں کہ ڈاٹ قوم کے لوگ خراب ریموٹ کو مکے رسید کرکے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں،افسوس اس بات پر ہے کہ وہ ریموٹ مکے کھاکر ٹھیک بھی ہوجاتا ہے۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.