
عروج نہیں زوال آیا : عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد اس ملک و قوم کا کیا نقصان ہوا؟ رؤف کلاسرا کی ایک تہلکہ خیز تحریر
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار رؤف کلاسرا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ جب خان صاحب نے درمیان میں انٹری ڈالی تو نواز شریف اور زرداری کو خطرے کا احساس ہوا کہ شاید کھیل ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ یوں انہوں نے دو بارہ سیاسی اتحاد کا فیصلہ کیا
اور عمران خان کے خلاف بند باندھنے کی کوشش کی جو زرداری اور نواز شریف کے لئے ایک بڑا خطرہ بن چکے تھے۔ زرداری اور شریف برادران اب بھی سمجھ رہے تھے کہ عمران خان ان کے مقابلے میں رزلٹ نہیں دے پائیں گے۔ زرداری صاحب کو اپنے سندھی ووٹر پر اعتماد تھا تو شریف خاندان پنجاب کو اپنی آماجگاہ سمجھ چکا تھا۔ ویسے بھی شریف خاندان رنجیت سنگھ کے بعد پنجاب میں سب سے زیادہ حکمرانی کا ریکارڈ قائم کر چکا تھا۔ بیورو کریسی سے لے کر میڈیا اور عام آدمی تک ان کی رسائی ہوچکی تھی۔ عمران خان کو اندازہ ہوا کہ انہیں اب روم میں وہی کرنا پڑے گا جو روم میں کیا جاتا ہے۔ یوں انہوں نے بھی وہی دائو استعمال کیا جو زرداری اور شریف کر رہے تھے۔ عمران خان نے بھی پہلے تو طاقتور لوگوں سے خفیہ ملاقاتیں شروع کیں۔ انہوں نے اپنی پارٹی میں انہی لوگوں کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا جن کے خلاف وہ تقریریں کرتے تھے۔ انہیں لگا کہ جب تک وہ زرداری اور شریفوں کا راستہ نہیں اپنائیں گے وہ پاور حاصل نہیں کر پائیں گے۔اس کے بعد جہانگیر ترین کی مدد سے انہوں نے جو بھی ملا اسے پارٹی میں شامل کر لیا۔ عوام کا بڑا طبقہ جو زرداری اور شریفوں کی نورا کشتی سے تنگ آیا ہوا تھا انہوں نے اس بات کو نظر انداز کیا کہ عمران خان اپنی پارٹی میں وہ مال شامل کررہے ہیں جنہوں نے پہلے زرداری اور شریفوں کے ساتھ مل کر ملک کے مسائل میں اضافہ کیا تھا۔
اب عمران خان نے یہ کہنا شروع کیا کہ وہ اس بدعنوان ایلیٹ کے بغیر ملک میں تبدیلی نہیں لا سکتے۔ لوگوں نے بھی اس جواز کو مان لیا کہ عمران خان اکیلے کیا کریں۔ یوں عمران خان کی یہ فلاسفی مشہور ہونا شروع ہوئی اور ان کی پارٹی میں سب بدعنوان شامل ہوتے گئے۔جب عمران خان کی حکومت بن چکی تو کیا سیاست اور سیاستدانوں کی عزت بحال ہوگئی؟ کیا لوگ اب بھی ٹی وی شوز پر سیاسی گفتگو اتنے شوق سے دیکھتے ہیں جیسے وہ پہلے دیکھتے تھے؟ کیا سیاست پر لوگوں کا اعتماد بڑھ گیا ہے؟ کیالوگوں کو لگتا ہے کہ سیاست اور سیاستدان اس ملک کے مسائل حل کر لیں گے؟ کیا سیاست اور سیاستدانوں کی عزت اور ساکھ ان ڈھائی سالوں میں بڑھ گئی ہے جب سے عمران خان وزیراعظم بنے ہیں؟اس کا جواب آپ سب جانتے ہیں۔ سیاست میں بدعنوانی بڑھ گئی ہے‘سیاستدان ایک دوسرے کو مغلطات سے نواز رہے ہیں‘ ان کے ورکرز ایک دوسرے کے لیڈروں پر دھاوے بول رہے ہیں۔ اسلام آباد میں شاہد خاقان عباسی ‘ مصدق ملک اور مریم اورنگزیب کی جو ہوا ‘ اس کی ویڈیو پوری دنیا نے دیکھی۔ اب شہباز گل کے ساتھ جو بدتمیزی لاہور ہائیکورٹ کے احاطے میں کی گئی وہ بھی پوری قوم نے دیکھی۔ جب سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ پارلیمنٹ کے باہر تحریکِ انصاف کے ورکرز نے بدتمیزی کی تو اس پر وزیراعظم خاموش رہے بلکہ ان کی پارٹی اپنے ورکرز کا دفاع کرتی رہی۔ اس طرح اب جب نواز لیگ کے ورکرز نے شہباز گل کے ساتھ بدسلوکی کیتو مریم نواز اور دیگر لیڈرشپ چپ رہی۔ خان صاحب کی شاہد خاقان عباسی کے ساتھ بدسلوکی پر خاموشی ہو یا مریم نواز کی شہباز گل کے ساتھ بدتمیزی پر ‘سمجھ لیں کس طرح کی سیاست ہو رہی ہے اور ملک کو کس طرف جارہا ہے۔ اگرچہ وقتی طور پر ان پارٹیوں کے سربراہان خوشیاں منارہے ہیں لیکن یہ بہت خطرناک رجحان ہے جس کا شکار تحریک انصاف اور نواز لیگ کے ورکرز نہیں بلکہ براہ راست عمران خان اور مریم نواز ہوں گے۔ آج کل تحریک انصاف مریم نواز کے خلاف سوشل میڈیا پر نازیبا ٹرینڈ چلواتی ہے تو جواباً نواز لیگ عمران خان کے خلاف۔ یہ کام نوجوانوں کو باقاعدہ تنخواہ دے کر کرائے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف اور نواز لیگ کے لیڈرز کو یہ نوجوان مغلطات بھی دیتے ہیں اور ان سے تنخواہ بھی لے رہے ہیں۔ اسی سے اندازہ کریں سیاست اور سیاستدان کہاں جا گرے ہیں۔
Leave a Reply